حقائقِ معراج شریف… ایک جائزہ

مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی
اسلام کا تعلق ظاہری اعضاء و جوارح سے ہے، جب کہ ایمان کا تعلق انسان کے قلب اور باطن سے ہے۔ عقیدہ کا جوہر یہیں ڈھلتا ہے، نظریات کے موتی اسی صدف سے نکلتے ہیں۔ دین حق کی کلیات و جزئیات پر یقین ایمان بالغیب کا لازمہ ہے۔ اسلامی تاریخ اور سیرت ختم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محیر العقول واقعہ معراج کا تعلق اسی سے ہے، جو کسوٹی کے طورپر سامنے آتا ہے، جہاں عقل و خرد کے سارے دعوے دم توڑ دیتے ہیں اور ایمان و یقین کا آفتاب عالمتاب طلوع ہوتا ہے۔ چوں سو سالہ تابناک تاریخ میں سیکڑوں اہل قلم نے اس موضوع پر تابحد نگہ علم و تحقیق، معلومات کے لعل و عقیق بکھیرے اور اپنے منفرد اسلوب، مدلل انداز، مثبت و مسکت افکار عالیہ سے بڑی ہی معرکہ آراء اور جامع و مانع گفتگو کی عزت و مسرت حاصل کی اور آیات قرآنی و احادیث نبوی، اقوال صحابہ اور ارشادات اسلاف کی ایک پرنور کہکشاں بکھیر دی اور حقائق و معارف، رموز و عوارف کی ایک دنیا آباد کردی۔ اس واقعہ کا نسل در نسل تسلسل، تکلماً و کتابۃً اس سعادت کا حصول مشیت ایزدی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ واقعہ لطیف و کثیف، اجسام و ارواح، رویت عینی، مشاہدہ آسمانی، کرہ سماوی، اجسام فلکی، لطافت جسمانی، عبدیت و بشریت، عوالم لاہوت، ناسوت، ملکوت کے علاوہ آئندہ وقوع پزیر ہونے والی جدید و عصری تحقیقات و سائنسی انکشافات و کونی شواہد جیسے عناصر کو عیاں و نہاں کرکے قدرت خداوندی پر ایمان لاکر اس کی بیکرانیوں کے آگے سجدہ ریز ہونا سکھاتا ہے۔

قدرت الہیہ کی ہر شے ایک آیت ہے، ہر ورق معرفت کا ایک دفتر ہے، ہر ذرہ عرفان کا ایک گلستاں ہے۔ جب عوام الناس کے افہام اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں تو انبیاء کرام کے ذریعہ اس کی تفہیم کروائی جاتی ہے اور ان کا آیت ہونا مسلم ہو جاتا ہے۔ اہل سنت و جماعت معراج النبی ہو یا دیگر معجزات تسلیم کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کرتے۔ اگرچہ کہ کوئی سائنس داں ان معجزات یا معراج کی علت و اسباب کے سمجھنے سے عاجز ہو۔ اللہ تعالی کا کسی کام کو انجام دینا دراصل کسی تجربہ مشق یا تدریجی معلومات کا منت پزیر نہیں ہوتا۔ اس منزل پر حقیقت اور ایمان کی بات یہ ہے کہ ’’کن فیکون‘‘ کی شان رکھنے والے معبود برحق کی طاقت و قدرت انبیاء عظام علیہم الصلوۃ والسلام کی عظمت و شان کا اظہار اور ان کی تائید و نصرت ہوتی ہے اور جب اللہ رب العزت کو یہ منظور ہوتا ہے کہ کسی مقدس ہستی کا برگزیدہ ہونا مخلوق و عباد پر ظاہر و ثابت کردے تو اسی طاقت و قدرت کو انبیاء عظام کے توسط سے اس آیت (نشانی) معجزہ کو ظہور میں لاتا ہے۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ہی ایک ’’آیت الکبریٰ‘‘ ہے، جس کے بارے میں اہل دل اور اہل نظر کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ’’مقتضائے ایمان تو یہ تھا کہ اگر کوئی ضعیف حدیث بھی اس باب میں وارد ہوتی تو اس خیال سے مان لی جاتی کہ آخر حدیث تو ہے کسی کی بنائی ہوئی بات نہیں، چہ جائیکہ قرآن کی آیتوں اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے‘‘۔ مگر ہر کسی کو یہ گراں بہا دولت ایمانی کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔
ہزارہا معجزات دیکھنے پر بھی تو اشقیاء اس دولت سے محروم ہی رہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ یہ معراج جسمانی تھی۔ اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا تو کفار کو بھی اس میں کلام کی کوئی گنجائش نہ ہوتی، کیونکہ خواب میں تو اکثر دور دور کے شہروں کی سیر کیا ہی کرتے ہیں۔ یہ واقعہ خلاف عقل اسی وقت ہو سکتا ہے کہ عالم بیداری میں ہوا ہو، جس کی تصدیق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کرکے ’’صدیق‘‘ کے لقب سے مفتخر ہوئے۔
معراج النبی فضیلتوں اور عظمتوں کا وہ چمن زار ہے، جس کے گلہائے رنگارنگ سے مشام جان و ایمان معطر ہوتی ہے اور دولت یقین کو ازدیاد بخشتی ہے۔ یہی معراج ہے کہ اس میں رسول معظم کے جلووں سے اہل دل کی دنیا میں ہمیشہ چراغاں کا سماں رہتا ہے۔ اس کی تابانیوں سے ہر منزل ویراں جگمگا اٹھتی ہے۔ اسی شب کی رسول ہاشمی کی معطر سانوں کے تصدق ہواؤں و فضاؤں کا شبستاں مہکتا ہے اور نکہت و نور کا امڈتا ہوا طوفان آن کی آن میں آفاق پر چھا جاتا ہے۔ راہ نور دجادہ اسریٰ، مہبط اسرار خدا، صاحب قاب قوسین او ادنی، جلال عظمت آدم، جمال عالم امکاں، فانوس ایوان جہاں، کلاہ بے کلاہاں، ساقی کوثر، خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی ان خصوصیات عالیہ میں سے ہے، جس میں اور کوئی نبی و رسول حضور جان نور صلی اللہ علیہ وسلم کا شریک و سہیم نہیں۔

کتاب حق کے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز ہی میں عظیم المرتبت و رفیع الدرجت واقعہ صد حیرت کا اظہار و آغاز عجیب شان یعنی لفظ ’’سبحان‘‘ سے ہوتا ہے کہ اللہ کی قدرت و طاقت اس کو ظہور میں لانے سے عاجز نہیں۔ ’’لیلا‘‘ مقدار قلیل کو بتاتا ہے۔ ’’بارکنا حولہ‘‘ سے مقام بیت المقدس کی عظمت اجاگر کی جا رہی ہے۔ ’’من آیاتنا‘‘ فرمایا کہ ارضی نشانات و شرافت و ذلت کی عقدہ کشائی کی گئی تو دوسری طرف سورہ النجم میں ’’لقد رای من آیات ربہ الکبری‘‘ کہہ کر عجائبات ملکوت کی ایسی تفصیل سے پردہ ہٹایا جا رہا ہے کہ لفظ کبری کے سامنے عقل و فہم سر بگریباں ہیں۔ ’’مازاغ البصر وما طغی‘‘ میں شوق دید، حسن ادب، ثبات و استعداد جیسے سارے لطائف کا احاطہ کرلیا کہ جلوہ ربانی متوجہ ہے اور بصارت محمدی پوری کمال قوت کے ساتھ وقف دید ہے۔ ’’ماکذب الفواد مارای‘‘ میں دیدہ و دل کا یقین و وثوق اور اعتبار بصارت اور بصیرت کی شان ظاہر کی جا رہی ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام حقیقتوں اور جملہ صداقتوں پر حاوی یقین کرنا ہی تقاضہ ایمان ہے۔ ’’فاوحی الی عبدہ مااوحی‘‘ کے ذریعہ حضور پاک صاحب لولاک کی شان عبدیت کو وحی سے ممتاز و معظم کرکے مثلیت کے تصور کو پاش پاش کیا جا رہا ہے اور مقام ’’دنی فتدلی‘‘ میں ’’قاب قوسین‘‘ کے قرب کو عیاں کرکے آپ کی شوکت و علوئے مرتبت کے پھریرے کو لہرایا جارہا ہے۔ الغرض قرآن کی دو آیات ۲۸ احادیث صحابہ کرام کی دو عظیم جماعتوں مکی مہاجر، مدنی انصار کا روایت کردہ، ۲۷؍رجب ۵۲ ولادت نبوی، دو مسجدوں، سات آسمانوں اور تعداد و مکاں سے مبرا، لامکاں کی سیر و مشاہدہ آیات بے شمار کا یہ واقعہ اس بات کا ثبوت پیش کر رہا ہے کہ:
عشق کی اک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمیں و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
حضور علیہ السلام نے عرض کیا ’’التحیات للہ والصلوۃ والطیبات‘‘۔ اللہ تعالی نے فرمایا ’’السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہٗ‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلام رحمت اور برکت میں اپنی امت کو شامل کرتے ہوئے فرمایا ’’السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین‘‘۔ اس واقعہ کا ذکر سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت ام ہانی سے کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ اس کا ذکر عام نہ کیا جائے، لوگ انکار کریں گے۔ مگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ’’میں حق بات کرنے سے کبھی باز نہیں رہ سکتا، چاہے کوئی تصدیق کرے نہ کرے‘‘۔ ابوجہل نے یہ واقعہ سنا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور کہا ’’کیا تم نے یہ سنا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا کہتے ہیں؟۔ کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اتنی جلدی بیت المقدس اور آسمانوں کا سفر طے کرلیا جائے؟‘‘۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تو ضرور سچ فرمایا ہے، ان کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا‘‘۔ ابوجہل نے حضور علیہ السلام سے کہا ’’کیا آپ یہ بات پوری قوم کے سامنے بھی کہنے کے لئے تیار ہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بے شک‘‘۔

ابوجہل نے کفار کو بلایا۔ جب تمام قبائل جمع ہو گئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنایا۔ انھوں نے تالیاں بجائیں اور تمسخر اُڑایا۔ ایک کافر نے کہا ہمیں معلوم ہے کہ آپ آج تک بیت المقدس نہیں گئے۔ بتائیے اس کے ستون اور دروازے کتنے ہیں؟۔ فوراً حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بیت المقدس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ستون اور دروازے سب بتا دیئے۔ کفار نے کہا ہو سکتا ہے کسی سے سن کر یاد کرلئے ہوں، کوئی ایسی بات بتاؤ جو نئی ہو۔ ایک کافر نے کہا کہ ہمارے تجارتی قافلے آنے والے ہیں، کیا آپ نے انھیں راستے میں کہیں دیکھا ہے؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں تین قافلے دیکھے ہیں‘‘۔ ان قافلوں کا ذکر سیرت حلبیہ جلد اول، صفحہ ۶۲۱، خصائص کبری جلد اول صفحہ ۱۸۰ کے علاوہ اور بہت سی کتابوں میں آیا ہے۔ پہلا قافلہ مقام روحا میں دیکھا ہے۔ یہ قافلہ چہار شنبہ کے روز سورج غروب ہونے تک یہاں پہنچ جائے گا۔ میں نے دیکھا کہ ان کا ایک اونٹ گم ہو گیا تھا اور وہ تلاش کر رہے تھے۔ وہ سخت پریشان تھے۔ میں نے انھیں آواز دی کہ فلاں جگہ اونٹ موجود ہے۔ وہ حیران ہوئے کہ یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کیسے آئی۔ دوسرا قافلہ زی مرہ پر تھا۔ یہ قافلہ چہار شنبہ کے روز دوپہر تک یہاں پہنچ جائے گا۔ ان سے دو آدمی اونٹ پر سوار تھے۔ جب ان کے پاس میرا براق تیزی سے گزرا تو اونٹ ڈر گیا اور دونوں سواروں کو نیچے گرا دیا۔ تیسرا قافلہ مقام تیعم پر دیکھا۔ اس قافلہ کے آگے آگے دھاری دار اونٹ چل رہے تھے۔ ایک شتر سوار کو سردی لگ رہی تھی اور وہ اپنے غلام سے کمبل مانگ رہا تھا۔ یہ قافلہ قریب آگیا ہے، صبح سورج طلوع ہوتے ہی یہاں پہنچ جائے گا۔ جس طرح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بعینہٖ اسی طرح ہوا اور قافلوں کی آمد کے پروگرام میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا۔ پھر کفار نے قافلے والوں سے وہ نشانات دریافت کئے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے تھے اور انھوں نے اس کی تصدیق کی۔ بہت سے کفار نے اسلام قبول کیا۔