تعلیم کے لیے منفرد 207 اقلیتی اسکولس کا قیام ، شادی کے لیے ایک لاکھ ، روزگار کی فراہمی کے لیے اقدامات
محمد نعیم وجاہت
ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے بتایا کہ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد نظام اسٹیٹ میں مسلمانوں کا جو وقار و احترام تھا وہ بحال کیا جارہا ہے ۔ تمام شعبہ حیات میں مسلمانوں کی حصہ داری بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں ۔ مسلمانوں کی خوشحالی کے بغیر سنہرے تلنگانہ کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ متحدہ آندھرا پردیش میں تلنگانہ کے ساتھ مسلمانوں سے نا انصافی کی گئی ۔ چیف منسٹر کے سی آر کے زیر قیادت 4 سالہ ٹی آر ایس کے دور حکومت میں اقلیتوں کی ترقی و بہبود کے لیے ڈھیر سارے اقدامات کئے گئے ۔ جس سے ریاست کے مسلمان مطمئن ہیں ۔۔
مسلمانوں کا عظیم نقصان تعلیم سے دوری
57 سالہ متحدہ آندھرا پردیش میں اقلیتوں کی ترقی و بہبود کے لیے نہ کوئی حکمت عملی تھی نہ منصوبے تیار کئے گئے ۔ منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار سے محروم کیا گیا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے مجاہد آزادی اور ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جس قوم کی زبان کو نقصان پہونچایا جاتا ہے اور تعلیم سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ قوم خود بہ خود زوال پذیر ہوجائے گی ۔ اسی فلسفے پر آندھرائی حکمرانوں نے عمل کیا اور مسلمانوں کی خود اعتمادی پر کاری ضرب لگائے ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد سب سے پہلے چیف منسٹر کے سی آر نے انٹگریٹیڈ سروے کرایا جس سے پتہ چلا ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ تعلیمی طور پر پسماندہ ہے ۔ آندھرا پردیش میں مسلمان مایوس تھے ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد تمام شعبوں میں مسلمانوں سے انصاف کیا جارہا ہے ۔ ان کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے مساوات کے طریقہ کار پر عمل کیا جارہا ہے ۔ گجرات اور مہاراشٹرا کی پولیس حیدرآباد پہونچکر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا کرتی تھی علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد اس طرح کی کارروائیاں ختم ہوگئی ہیں ۔ تلنگانہ سارے ہندوستان میں امن و قومی یکجہتی کی مثال بن گیا ہے ۔ یہ بہت بڑی تاریخی تبدیلی ہے ۔ ٹی آر ایس نے مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لیے جو وعدے کئے تھے اس کو ایک کے بعد دیگر پورے کررہی ہے ۔۔
نظام دور کے بعد اب مسلمانوں کو نمایاں مقام
مسلمانوں کی خوشحالی چیف منسٹر کے سی آر کا نصب العین ہے ۔ مسلمانوں میں پائی جانے والی مایوسی کو دور کرنے اور ان کی خود اعتمادی کو بلند کرنے کے لیے نئی ریاست میں مسلمان کو ڈپٹی چیف منسٹر بنایا گیا جو بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہے ۔ اس کے علاوہ تین غیر اقلیتی اداروں میں مسلمانوں کو صدر نشین نامزد کیا گیا ۔ 4 مسلم قائدین کو تلنگانہ قانون ساز کونسل کا ارکان بنایا گیا ۔ اردو کو ریاست کے تمام 31 اضلاع میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ۔ اسمبلی اور کونسل میں اردو کے سوال پر متعلقہ وزراء اردو میں جواب دے رہے ہیں ۔ اردو زبان کے چلن کو عام کرنے کے لیے حکومت نے 66 اردو مترجمین کا تقرر کیا تاکہ شہر اور اضلاع میں اردو میں وصول ہونے والی درخواستوں کی یکسوئی ہوسکے ۔ کے جی تا پی جی تک مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کا جال پھیلایا جارہا ہے ۔ محکمہ اقلیتی بہبود کا اجلاس طلب کرتے ہوئے وزارت اقلیتی بہبود کا قلمدان رکھنے والے چیف منسٹر کے سی آر نے اردو کی ترقی کا جائزہ لیتے ہوئے عہدیداروں کے لیے خصوصی ہدایتیں جاری کی ہیں ۔ جس طرح تلگو زبان کو ترقی دی جارہی ہے ۔ اس طرح اردو زبان کو بھی ترقی دینے کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ بجٹ میں اقلیتوں کے لیے 2000 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں ۔ شادی مبارک اسکیم کے تحت 87 ہزار مسلم لڑکیوں کو فائدہ پہونچایا گیا ہے ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد 25 ہزار روپئے کی اسکیم کو 50 ہزار کیا گیا پھر 75 ہزار کیا گیا اب 1.116 روپئے دئیے جارہے ہیں جو غریب ماں باپ کے لیے بہت بڑی راحت ثابت ہورہی ہے ۔ اقلیتی طلبہ کو ایس سی ایس ٹی طلبہ کی طرز پر اسکالر شپس اور فیس ری ایمبرسمنٹ ادا کی جارہی ہیں ۔ ہر سال 100 طلبہ کو آئی اے ایس اور آئی پی ایس کی تربیت فراہم کرنے کے لیے حکومت تربیت کی فیس ادا کررہی ہے ۔۔
اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے 27 ہزار درخواستوں کی یکسوئی
ٹی آر ایس حکومت اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو مستحکم بنانے کے لیے کئی اقدامات کررہی ہے ۔ سابق حکمرانوں نے اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو نقصان کے دہانے پر پہونچا دیا تھا ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد اس کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے بیروزگار نوجوانوں کو تربیت کے ساتھ خود روزگار فراہم کرنے کے لیے نئی اسکیمات متعارف کرائی جارہی ہیں ۔ متحدہ آندھرا پردیش میں خود روزگار اسکیمات کے لیے سالانہ 3000 درخواستیں وصول ہوتی تھی جس میں 50 تا 60 فیصد درخواستوں کی یکسوئی ہوا کرتی تھی ۔ سال 2015-16 میں 1.57 لاکھ درخواستیں وصول ہوئیں جس میں ابھی تک 27 ہزار درخواستوں کی یکسوئی کردی گئی ہے ۔ مزید درخواستوں کی اسکورٹنی جاری ہے ۔ ایک لاکھ قرض تک وصول ہونے والی تمام درخواستوں پر ہمدردانہ غور کیا جارہا ہے ۔ بینک کے تعاون کے بغیر بڑے پیمانے کی سبسیڈی کے ساتھ انہیں قرض جاری کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ پہلے 20 فیصد قرض دیا جاتا تھا اور امیدوار کو 80 فیصد رقم لگانی پڑتی تھی جو کہ تلنگانہ کے قیام کے بعد 80 فیصد سبسیڈی اور 20 فیصد امیدوار کو لگانے پڑتے ہیں ۔۔
ٹی آر ایس 12 فیصد مسلم تحفظات کے معاملے میں عہد کی پابند
علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد چیف منسٹر مسلمانوں کو وعدے کے مطابق 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کے لیے سنجیدہ جدوجہد کررہے ہیں مرکز میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہونے کی وجہ سے اس پر عمل آوری میں تاخیر ہورہی ہے ۔ پہلے سدھیر کمیشن تشکیل دیا گیا پھر بی سی کمیشن کی سفارش کے بعد اسمبلی اور کونسل میں بل منظور کرتے ہوئے مرکز کو روانہ کیا گیا ہے ۔ چیف منسٹر نے اس مسئلہ پر وزیراعظم نریندر مودی سے تبادلہ خیال کیا ہے ۔ ٹی آر ایس کے ارکان پارلیمنٹ نے 10 دن تک پارلیمنٹ میں احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کو مفلوج کیا ہے ۔ اگر وزیراعظم کی جانب سے مسلم تحفظات بل کو مسترد کیا جاتا ہے تو ٹی آر ایس حکومت سپریم کورٹ سے رجوع ہوگی ۔ ہندوستان میں ٹاملناڈو کے لیے ایک اور تلنگانہ کے لیے الگ قانون نہیں ہوسکتا ۔ مسلمانوں سے جو وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا کیا جائے گا ۔ ٹی آر ایس کو امید تھی کہ 2014 کے عام انتخابات میں مرکز میں مخلوط حکومت قائم ہوگی اور وہ اپنے ارکان پارلیمنٹ عددی طاقت کے ساتھ مرکز پر دباؤ ڈالتے ہوئے 12 فیصد مسلم تحفظات بل کو منظور کرالے گی مگر مرکز میں بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی ہے جس سے تاخیر ہورہی ہے ۔۔
مسلمانوں کی تعلیمی ترقی
علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کا نیا دور شروع ہوا ہے ۔ تلنگانہ ہندوستان کی واحد ریاست ہیں جہاں 204 اقلیتی اقامتی اسکولس قائم کئے گئے ہیں ۔ 2 سال کے دوران بہت بڑا کارنامہ انجام دیا گیا ہے ۔ جس میں 65 ہزار لڑکے و لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ان تعلیمی اداروں میں طلبہ کے قیام و طعام کی مفت سہولت فراہم کرتے ہوئے فی طالب علم پر 1.15 لاکھ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں ۔ محکمہ مال سے 70 میناریٹی ریزیڈنشیل اسکولس کے لیے 2 تا 8 ایکڑ اراضی الاٹ کی گئی ہے ۔ جن مقامات پر سرکاری اراضیات نہیں ہے وہاں وقف اراضیات کو بھی حاصل کرتے ہوئے ان تعلیمی اداروں کے ذاتی بلڈنگس تعمیر کرنے کے لیے چیف منسٹر نے ہر اسکول کو 18 تا 20 کروڑ روپئے مختص کیا ہے ۔ اقلیتی مالیاتی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ نے ناسا پہونچکر دوسرا مقام حاصل کیا ہے جو ہمارے لیے باعث فخر ہے ۔ یہی نہیں چیف منسٹر نے مسلم طلبہ کو بیرونی ممالک کی یونیورسٹیز میں حصول تعلیم کے لیے اوورسیز اسکالر شپس کی اسکیم روشناس کراتے ہوئے ہر طالب علم کے لیے 20 لاکھ روپئے ناقابل واپس ادا کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر کی جانب سے طلب کئے گئے ۔ اجلاس میں ایک آئی اے ایس عہدیدار نے تعلیم کی تکمیل کے بعد طلبہ سے فیس واپس طلب کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ جس کو چیف منسٹر نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرزند کے ٹی آر اور دختر کویتا کو امریکہ روانہ کر کے تعلیم دلائی جب اپنے بچوں سے پیسے واپس طلب نہیں کیا ، غریب بچوں سے کیسے طلب کروں گا ۔ اقلیتوں کی ترقی و بہبود کے لیے بجٹ میں 2000 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے ۔۔
مذہبی مقامات اور مسلمانوں کی امداد
تلنگانہ میں پہلی مرتبہ 9800 مساجد کے آئمہ و موذنین کو مشاہرہ ادا کیا جارہا ہے ۔ اس اسکیم کے تحت امام کو 1500 اور موذن کو 1000 روپئے ماہانہ معاوضہ دیا جارہا ہے ۔ دینی مدارس کے طلبہ کو دوسرے ممالک کے اسلامک یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے پر اوورسیز اسکیم کے تحت انہیں بھی 20 لاکھ روپئے ناقابل واپسی اسکالر شپ دی جارہی ہے ۔ عید کے موقع پر مسلمانوں میں 20 کروڑ روپئے کا پیاکیج دیا جارہا ہے ۔ 800 مساجد میں افطار و طعام کے لیے فی کس ایک لاکھ روپئے دئیے گئے ۔ کپڑوں کے 4 لاکھ پیاکٹس تقسیم کئے گئے ۔ حیدرآباد میں اسلامک سنٹر قائم کرنے کے لیے کوکہ پیٹ میں 10 ایکڑ اراضی مختص کرتے ہوئے 40 کروڑ روپئے منظور کئے گئے جس میں بہت بڑا کنونشن سنٹر بھی قائم کیا جائے گا ۔ اجمیر میں رباط کے قیام کے لیے 2.4 کروڑ روپئے کے مصارف سے اجمیر میں ایک ایکڑ اراضی خریدی گئی ہے ۔ انیس الغرباء یتیم خانہ کی تعمیر کے لیے 4 ہزار 400 گز اراضی مختص کی گئی ہے ۔ 20 کروڑ روپئے کے مصارف سے تعمیری کاموں کا آغاز ہوگیا ہے ۔ جامعہ نظامیہ میں آڈیٹوریم کی تعمیر کے لیے 14 کروڑ روپئے جاری کئے گئے ۔ ہر ضلع ہیڈکوارٹر پر حج ہاوز تعمیر کئے جارہے ہیں ۔ ساتھ ہی ہر اسمبلی حلقہ سطح پر مسلم شادی خانے تعمیر کئے جارہے ہیں ۔ جہانگیر پیراں درگاہ کی ترقی کے لیے 50 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ۔۔
مسلمانوں کا درخشاں مستقبل
ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے کہا کہ حکومت ہر طرح سے مسلمانوں کی مدد کررہی ہے ۔ معیاری تعلیم کے لیے میناریٹی ریزیڈنشیل اسکولس قائم کئے گئے ہیں ۔ آئندہ مزید 300 اسکولس کا اضافہ کیا جائے گا ۔ اچھی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ تمام مسابقتی امتحانات میں داخلے کے اہل ہوں گے ۔ اس کے بعد ان کے لیے آسانی سے ملازمت کے دروازے کھل جائیں گے ۔ حکومت تعلیم کے ساتھ ملازمتوں میں مسلمانوں کے تناسب میں اضافہ کرنے کے لیے سنجیدہ کام کرے گی ۔ ٹی ایس آئی پاس کے ذریعہ مسلمانوں کو چھوٹی چھوٹی صنعتیں قائم کرنے کے لیے 25 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ۔ بے روزگار نوجوان اس اسکیم سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں ۔ ٹی آر ایس حکومت اقلیتوں کے لیے سب پلان متعارف کرانے پر بھی سنجیدگی سے غور کررہی ہے ۔ چیف منسٹر نے اس سلسلے میں اعلیٰ عہدیداروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے جائزہ لیا ہے ۔ اگر سب پلان تیار ہوجاتا ہے تو اقلیتوں کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوگا ۔ اگر اتفاق سے مکمل بجٹ خرچ نہیں ہوا تو آئندہ سال کے بجٹ میں اس کو شامل کرلیا جاتا ہے ۔ اس طرح ٹی آر ایس حکومت تمام شعبوں میں مسلمانوں کو ترقی دینے حکومت کا حصہ دار بنانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے ۔ آئندہ بھی ریاست میں ٹی آر ایس کی حکومت قائم ہوگی جس کے بعد مسلمانوں کی ترقی کے معاملے میں تلنگانہ سارے ملک میں سرفہرست ہوجائے گا ۔۔