سید ابراہیم فہیم
شہزادۂ غوث اعظم حضرت سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد بزرگوار پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے آخری وقت میں وصیت کی خواہش ظاہر کی تو حضرت غوث اعظم نے صاحبزادے سے فرمایا کہ ’’تم اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور اس کی اطاعت کو لازم پکڑلو اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرو اور نہ کسی سے کوئی امید رکھو۔ اپنی تمام حاجات کو اللہ تعالیٰ سے طلب کرو اور اللہ کی ذات کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرو اور تمہارا اعتماد اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہو۔ توحید کو لازم پکڑو، کیونکہ تمام عبادات کا مجموعہ توحید ہی ہے۔
حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرض الموت میں فرمایا کہ ’’جب دل اللہ تعالیٰ کی معیت میں درست ہو جاتا ہے تو کوئی چیز اس سے خالی نہیں ہوتی اور نہ اس سے کوئی چیز باہر ہوتی ہے۔ میں سراپا مغز ہوں، چھلکا نہیں ہوں‘‘۔ آپ نے اپنی اولاد سے فرمایا: ’’میرے ارد گرد سے ہٹ جاؤ، دُور ہو جاؤ۔ میں ظاہر میں تو تمہارے ساتھ ہوں اور باطن میں تمہارے غیر کے ساتھ ہوں۔ میرے اور تمہارے اور تمام مخلوق کے درمیان اس قدر دوری ہے، جس طرح زمین و آسمان۔ لہذا نہ مجھ کو کسی پر قیاس کرو اور نہ کسی کو مجھ پر قیاس کرو‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس تمہارے غیر (یعنی فرشتے) حاضر ہوئے ہیں، پس ان کے لئے جگہ خالی کردو، اُن کا ادب کرو۔ اس جگہ بڑا ہجوم ہے، تم ان پر جگہ تنگ نہ کرو‘‘۔
حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے فرماتے ہیں کہ ’’آپ نے آخری لمحات میں فرمایا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، اللہ تعالیٰ مجھے اور تمھیں بخشے، مجھ پر اور تم پر اپنی خاص توجہ فرمائے۔ بسم اللہ، تشریف لائیے اور رخصت نہ کئے جاؤ‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’تمہارے اوپر افسوس ہے، میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا اور نہ کسی فرشتہ کی اور نہ ملک الموت کی۔ اے ملک الموت! تم علحدہ ہو جاؤ، ہمارے لئے تمہارے سوا وہ ذات ہے، جو کہ ہماری تولیت فرماتی ہے‘‘۔ یہ فرماکر آپ نے ایک چیخ ماری۔ یہ واقعہ اس دن کا ہے، جس شام کو آپ نے وصال فرمایا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کے صاحبزادے نے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے اس وقت کچھ نہ پوچھو، میں اس وقت علم خداوندی میں کروٹیں بدل رہا ہوں‘‘۔ (فیوض غوث یزدانی، ترجمہ الفتح الربانی)