حضرت پیرانِ پیرؓ اور مردہ دلوں کی مسیحائی

 

اُمت محمدیہ کو دیگر اُمتوں پر کئی اعتبارات سے فضیلت و خصوصیت حاصل ہے ۔ ان میں سے ایک خصوصیت اس اُمت کی یہ ہے کہ اس میں حضرت غوث اعظم ، محبوب سبحانی ، غوث صمدانی ، قندیل نورانی ، پیرانِ پیر شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ اس بارگاہ عالی میں نذرانۂ غلامی پیش کرنے سے قلم و دماغ اور قلب و روح حیران ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ اس مختصر مضمون میں آپ ہی کے ملفوظات کو نقل کردیا جائے جو تاقیامت سرچشمۂ نور و ہدایت ہیں اور صدیوں سے لاکھوں مردہ نفوس کو حیاتِ قلبی و اخروی سے بہرہ مند کررہے ہیں۔ آپ کے خطابات کو آپ کے صاحبزادے حضرت سید عبدالرزاق گیلانیؒ اور خلیفہ حضرت شیخ عفیف الدین مبارکؒ نے قلمبند کیا ہے۔ حضرت شیخ عفیف الدین مبارکؒ کے مرتبہ خطبات ’’فتح الربانی‘‘ کی شکل میں معروف و متداول ہیں۔ آپ کے صاحبزادے حضرت سید عبدالرزاق گیلانیؒ قدس سرہ السامی کے مرتبہ خطابات ’’جلاء الخواطر‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ چند اقتباسات درج ہیں :
’’نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے نفس کا خود واعظ نہ بنے اس کو کوئی واعظ کاوعظ نفع نہیں دیتا۔ جو فلاح چاہے ، اپنے نفس کونصیحت کرے ، اس کو توبہ سکھائے اور مجاہدہ کرائے ۔ زہد یہ ہے پہلے حرام چیزوں کو چھوڑے ۔ پھر شبہ والی چیزوں کو چھوڑے پھر مباح چیزوں کو چھوڑے۔ پھر ہر حالت میں خالص حلال چیزوں کو بھی چھوڑے ، غرض کوئی چیز نہ رہے جسے نہ چھوڑدے۔ حقیقی زہد یہ ہے کہ ، دنیا چھوڑے ، آخرت چھوڑے ، خواہشات و لذات چھوڑے ۔ غرض کوئی چیز نہ رہے جسے چھوڑ نہ دے ۔ حالات و درجات ، کرامات اور مقامات طلب کرنا چھوڑ دے اور خالق کائنات کے سوا ہر چیز کو چھوڑے حتی کہ خالق بزرگ و برتر کے سوا کوئی نہ رہے جو ہماری منتھیٰ اور غایب مقصود ہے ۔
( جلاء الخواطر ، ص : ۴۲۔۵۲)
’’ایمان والوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ پہلے سوچتا ہے پھر بات کرتا ہے نفاق والا پہلے بات کرتا ہے پھر سوچتا ہے ۔ مومن کی زبان اس کی عقل اور دل کے پیچھے ہوتی ہے اور منافق کی زبان اس کی عقل اور دل کے آگے ۔ اے ہمارے اﷲ ! ہمیں ایمان والوں میں کر اور نفاق والوں میں نہ کر اور ہمیں دنیامیں نیکی دے اور آخرت میں نیکی دے اور آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔ (ص:۲۵)
’’اے نافرمانو! اپنے پروردگار سے توبہ کے ذریعہ صلح کرو ۔ یہ دل خدائے بزرگ و برتر کے قابل نہ ہوگا جبکہ اس میں ذرہ بھر بھی دنیا اور مخلوق میں سے کسی ایک سے طمع موجود ہو ۔ پس اگر تم اسے صحیح کرنا چاہتے ہو تو ان دونوں چیزوں کو اپنے دلوں سے نکال باہر کرو اور اس سے تمہارا نقصان نہ ہوگا کیونکہ جب تم واصل باﷲ ہوجاؤگے تو تمہارے پاس دنیا او ر مخلوق (دونوں خود خادم بنکر) آئیں گے اور تم اﷲ کے ساتھ اس کے دروازہ پر ہوگے ۔ یہ آزمودہ چیز ہے ‘‘ ۔ ( ص:۳۳)
’’اے صاحبزادے ! تمہارے لئے تمہارے ہر عمل نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ میں خدائے بزرگ و برتر کے لئے اخلاص لازم ہے ۔ اس تک پہنچنے سے پہلے اس سے عہد لے لو ۔ یہ عہد کیا ہے ۔ یہی اخلاص، توحید ، اہل سنت و جماعت ( کے عقائد ) اور صبر و شکر تسلیم ( و رضا بخدا ) اور مخلوق کو چھوڑنا اور ( محض ) اس کو ڈھونڈنا اور دوسروں سے منھ پھرانا اور اپنے دل اور باطن سے خدا کی طرف منہ کرنا ، پس (اگر تم ان باتوں کے پابند ہوجاؤ تو عہد کے مطابق حق تعالیٰ ) لامحالہ تمہیں دنیا میں نزدیکی عطا کریں گے اور سب سے بے نیازی اور اپنی محبت اور اپنا شوق اور آخرت میں تمہیں اپنی نزدیکی اور اپنی نعمت سے وہ چیزیں دیں گے جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر گزریں‘‘ ( ص : ۳۴)
’’اے نافرمانو! توبہ کرو ۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ اور اس کے فضل سے مایوس نہ ہو ۔ اے مردہ دلو ! ہمیشہ خدائے بزرگ و برتر کو یاد کرو ۔ اس کی کتاب کی تلاوت کرو ۔ اس کے رسول کی سنت کی پیروی کرو اور ذکر کی مجلسوں میں حاضر ہوتے رہویقینا یہ چیز تمہارے دلوں کو اس طرح زندہ کردیگی جیسے کہ مردہ زمین کو بارش پڑنے سے زندگی مل جاتی ہے ۔ ذکر کی ہمیشگی دنیا اور آخرت میں خیر کا سبب بنتی ہے ۔ جب دل صحیح ہوجاتا ہے تو اس میں ذکر دائمی قائم ہوجاتا ہے ۔ اس کے سارے دل اور اس کی اطراف میں لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل پنے خدائے بزرگ و برتر کو یادکرتا ہے ۔ یہ اس کو اپنے نبی کریم ﷺ سے میراث میں ملتی ہے جو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کو یاد کیاکرتے تھے ‘‘ ۔ ( ص : ۳۶)
’’کچھ وقت دنیا کو دو ( یعنی کمانے اور کھانے کے لئے ) اور کچھ وقت آخرت کو دو ( شرعی فرائض کی ادائیگی کے لئے ) اور کچھ وقت اپنے بیوی بچوں کو دو ( ہنسنے بولنے کے لئے ) اور باقی سارا وقت اپنے خدائے بزرگ و برتر کے لئے رکھو ۔ پہلے اپنے دل کی صفائی میں لگ جاؤ کیونکہ یہ فرض ہے ۔ پھر معرفت کے درپے ہو چونکہ اگر تم نے اصل کو ضائع کردیا تو تمہارا فرع میں مشغول ہونا قبول نہ ہوگا ۔ دل کی ناپاکی کے ساتھ ہاتھ پاؤں کی پاکی فائدہ نہیں دیتی ۔ اپنے ہاتھ پاؤ ں کو سنت کے ذریعہ پاک کرو اور اپنے دل کو قرآن پر عمل کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کرو تاکہ یہ تمہارے ہاتھ پاؤں کی حفاظت کرے۔ ہر برتن سے وہی چھلکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے ۔ جو چیز تمہارے میں ہوگی تمہارے ہاتھ پاؤں پر ٹپکے گی۔ تواضع کرو ، جتنا جھکوگے اتنے ہی پاک ۔ بڑے اور بلند ہوگے‘‘ ۔ ( ص : ۳۹)
’’نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے مروی ہے کہ حیا اثر ہے ایمان ہے۔ اپنے خدائے بزرگ و برتر سے تم کس قدر بے شرم اور بے باک ہو ۔ مخلوق سے شرمانا اور خالص برحق سے نہ شرمانا دیوانہ پن ہے ۔ حقیقی حیاء یہ ہے کہ اپنی خلوت اور جلوت میں خدائے بزرگ و برتر سے شرماؤ تاکہ مخلوق سے شرمانا تابع ہوکہ اصل مومن خالق سے شرماتا ہے ‘‘ ۔ (ص : ۷۳)
’’اور تم اے واعظو ! انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی جگہ چڑھ بیٹھے ہو اور پہلی صف میں آگے ہو رہے ہو اور داؤ پیچ اور بچھاڑنا اچھی طرح آتا کوئی نہیں ۔ نیچے اُترو اور سیکھو اور عمل کرو اور خلوص اختیار کرو ۔ پھر اس کام کی چڑھائی کرو ۔ جس کی ابتداء نفس ، خواہش نفسانی ، طبیعت ، شیطان ، دنیا اور مزوں کا بچھاڑنا اور مخلوق کو اس کے برے اور بھلے کے لئے دیکھنا چھوڑدینا ہے ۔ جب تم ان سب پر غالب ہوجاؤ گے اور ان کو ایمان اپنے یقین اور اپنی توحید کی طاقت سے دبالوگے تو اﷲ تعالیٰ تمہارے دل میں اور تمہارے باطن میں حق بات پیدا فرمائیں گے اور ان کو اپنے نزدیکی کے گھر میں جمادیں گے پھر ان کو ان کی طرف کا حکم کریں گے تو اس وقت تم مخلوق کے ساتھ کھڑے ہونے کے میدان میں خوب داؤ پیج کروگے ۔ اور ان کے شدائد برداشت کروگے ۔ اے اﷲ ! ہمیں اس چیز میں لگائیے جس میں آپ ہم سے راضی ہوں ۔ اور ہمیں دنیا میں اور آخرت میں نیکی دیجئے ۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیے ۔ ( ص:۱۶۷)