حضرت نقشبند دکن شاہ سعداﷲ رحمتہ اﷲ علیہ

سید شاہ محمد خضر نقشبندی

حضرت شاہ سعداﷲ نقشبندی اکابر و مشاہیر اولیاء و علماء کاملین و عارفین سے ہیں۔ مرجع خلائق عوام و خواص علماء و عرفا تھے ۔ ہندوستان کے مشہور مجددی بزرگ حضرت مولانا غلام علی شاہ دہلوی المتوفی ۱۲۴۰ ؁ھ کے ممتاز خلفاء سے تھے اور مولانا موصوف حضرت مرزا مظہر جانِ جانان شہیدؒ المتوفی ۱۱۹۵ ؁ھ کے خلیفہ ۔
حضرت شاہ سعداﷲؒ کی ولادت موضع اچڑی پکلی علاقۂ پنجاب بہ سرحد افغانستان ۱۱۹۹؁ھ ہوئی ۔ صغر سنی ہی سے آثار بزرگی ظاہر تھے ۔ علوم ظاہری کی تعلیم اپنے وطن کے مدارس میں حاصل فرمائی اور پھر ان کی تکمیل اپنے پیر بھائی حضرت مولاا اخوند شیر محمد صاحبؒ سے کی ۔ آپ کے خالہ زاد برادر مولانا سید محمد عثمان صاحبؒ بھی آپ کے ہمدرس تھے جو آپ کے پیر بھائی تھے اور بعد میں آپ کے خلیفہ و جانشین ہوئے ۔ آپ نے بارہ سال پیر کی خدمت میں گذارے ۔ کثرت ریاضت و مجاہدہ اختیار فرمایا اور درجۂ کمال کو پہنچے ۔ پیر کامل نے آپ کو شاہ کا خطاب عطا فرمایا اور طریقہ نقشبندیہ مجددیہ ، قادریہ ، چشتیہ ، سہروردیہ اور کبرویہ میں اجازت بیعت و خلافت عطا فرمائی ۔ بعد ازاں آپ ہمراہ مولوی سید عثمان صاحبؒ حرمین شریفین تشریف لے گئے ۔ بعد ادائی فریضۂ حج و زیارت و ترقی مدارج باطنی حسب ارشاد نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ہندوستان آئے ۔ دورانِ سفر بکثرت مخلوق نے آپ سے استفادہ کیا۔ ۱۲۴۵؁ ھ براہ مدراس و کرنول حیدرآباد تشریف لائے ۔ محلہ اردو شریف میں نواب جان کے باغ کا ایک حصہ خرید فرمایا اور یہاں ۱۲۴۹؁ ھ میں رونق افروز ہوئے ۔
آپ نہایت سختی سے پابند سنت و مرد مرتاض ومتوکل واتقی الناس تھے ۔ امراء و حکام سے نہ تو ملاقات فرماتے اور نہ تو کسی قسم کی معاش و تحف قبول فرماتے ۔ شاہ وقت ملاقات کے متمنی تھے لیکن آپ نے گھر سے باہر قدم نہیں نکالا ۔ آپ جید عالم باعمل اور ماہر فنون سپہ گری تھے ۔ آپ کا معمول تھا کہ روزآنہ پچیس ہزار بار ذکر کرتے اور پندرہ پاریقرآن پاک تلاوت فرماے ۔ بعد عصر مولانا عبدالرحیم صاحب مکتوبات امام ربانی اور مثنوی مولانا روم آپ کے حسب حکم پڑھتے اور آپ سماعت فرماتے۔
آپ کی مسجد جو فن تعمیر کا نہایت خوبصورت و اعلیٰ نمونہ ہے زیراہتمام مولانا سید محمد عثمان صاحب ۱۲۶۸؁ ھ میں مکمل ہوئی ۔ مسجد کا قطعہ تاریخ دکن کے مشہور عالم و صوفی و شاعر حضرت مولانا شمس الدین فیضؔ نے ’’مکرم مسجد الاقصیٰ اساس شاہ سعداﷲ ‘‘ نکالا جو آج بھی مسجد پر کندہ ہے۔
حضرت شاہ سعداﷲ ؒ کے کئی خلفاء تھے جن میں چند حضرات یہ ہیں : حضرت مسکین شاہ نقشبندی مجددیؒ ، حضرت میر اشرف علی نقشبندی مجددیؒ ، حضرت بخاری شاہ نقشبندی مجددیؒ آپ کے خلیفہ محدث دکن حضرت سید عبداﷲ شاہ نقشبندی مجددیؒ ہیں جو جلیل القدر محدث ، فقیہ ، مفتی ،مفسر گذرے ہیں ، حضرت سید شاہ سعیدالدین حسینؒ ، حضرت مولانامحمد حسین نقشبندیؒ ، حضرت عبدالقادر ؒ آپ حضرت حافظ محمد فضل اللہ نقشبندی مجددی کے فرزند و خلیفہ اور بحرالعلوم حضرت عبدالقدیر صدیقی ؒ حسرتؒ کے والد ماجد تھے ۔
حضرت شاہ سعداﷲ صاحب کا وصال ۲۸ جمادی الاول ۱۲۷۰؁ ھ کو ہوا ۔ نماز جنازہ مکہ مسجد میں ادا کی گئی ہزارہا آدمی شریک نماز جنازہ تھے ۔ تدفین آپ ہی کی مسجد کے بالمقابل چبوترہ پر ہوئی ۔ مزارپرانوار مٹی کا ہے جو قابل دید ہے ۔ مزار پر نظام دکن آصف جاہ پنجم نے ایک عظیم الشان گنبد بنادی ۔ گنبد میں چار مزارات ہیں ۔
آپ کی مرقد کے علاوہ آپ کے جانشین مولانا سید محمد عثمان صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ اور مولانا اشرف علی صاحب کے مزارات ہیں۔