حضرت مولانا قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی قادری (صدر کل ہند جمعیۃ المشائخ)
فنا اور بقا تصوف کی اصطلاحات ہیں۔ فنا کا مفہوم ہے نفسانی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردینا۔ اور بقا کا مفہوم ہے نفس امارہ کا نفس لوامہ سے بڑھ کر مطمئنہ‘ راضیہ مرضیہ ہو جانا اور یہی قربِ خاص کا مقام ہے۔ فنا کو نیستی اور بقا کو ہستی قرار دیتے ہوئے عارف رومیؒ اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں ؎
آئینہ ہستی چہ باشد نیستی
نیستی بگزیں گرا بلہ نیستی
زندگی کا آئینہ کیا ہے فنا ہونا ہے (لہٰذا) اپنے کو فنا کردے اگر تو نادان نہیں ہے (یعنی عقلمند ہے) ؎
گرچہ آں وصلت بقا اندر بقاست
لیک اول آں بقا اندر فناست
اس (مالک حقیقی) تک رسائی اگرچہ بقا ہی بقا میں ہے مگر وہ بقا کی منزل فنائیت کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی بقاء سے پہلے فناء ضروری ہے ؎
چوں زِ خود رستی ہمہ برہاں شدی
چونکہ گفتی بندہ ام سلطاں شدی
جب خود (خواہش نفس) سے چھٹکارا پاجائوگے تو تم سراپا برہان بن جائو گے۔ جب تم اپنے کو غلام تسلیم کرلوگے تو پادشاہ ہوجائو گے یعنی خود بھی صاحبِ یقین ہوگے اور تم سے دوسرے بھی یقین کی دولت سے مشرف ہونگے اور اسی بندگی میں سلطانی مضمر ہے ؎
چوں بمردم از حواسِ بوالبشر
حق مراشد سمع و ادراک و بصر
جب تم کسی مرد کامل (کی صحبت) کے فیض سے اپنے نفس کو مٹادوگے تو تم حق تعالیٰ کے نور سے سنوگے‘ اسی کے نور سے محسوس کروگے اور اسی کے نور سے دیکھو گے۔ یعنی اسی نورِ الٰہی کی بدولت تم حواس خمسہ ظاہری و باطنی کے ذریعہ اپنے افعال انجام دو گے ؎
چوں پری غالب شود برآدمی
گم شود از مرد وصفِ آدمی
جب کسی آدمی پر جن مسلط ہوجاتا ہے تو آدمی کے اوصاف اس سے گم ہوجاتے ہیں۔ یعنی اس کی گفتگو اور اس کی حرکات سب جن کی طرف سے متصور ہوتے ہیں اسی طرح جب حق تعالیٰ کی محبت غالب ہوجاتی ہے اور ذکر و طاعت کے انوار‘ آنکھوں میں‘ کانوں میں اور جسم کے ذرہ ذرہ میں سرایت کرجاتے ہیں تو مومن کامل خدا ہی کے نور سے دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ربانی ہے ’’کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصربہ‘‘ یعنی میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔دوسری حدیث قدسی میں ارشاد ربانی ہے ’’اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ‘‘ یعنی مومن کی فراست سے ڈروکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ؎
راہِ فانی گشتہ راہِ دیگرست
زاں کہ ہُشیاری گناہِ دیگرست
فانی فی اللہ کا راستہ کچھ اور ہی (خاص) راستہ ہے کہ اس راہ میں ہشیاری گناہ ہے۔ یعنی انہماک فی اللہ سے غافل ہونا اور غیر اللہ کی جانب متوجہ ہونا مضر ہے ؎
منتہائے سیرِ سالک شد فنا
نیستی از خود بود عینِ بقا
سالک کے لئے آخری منزل فنا ہوجانا ہے اور یہی فنائیت‘ عین بقا (قرب خاص) ہے ؎
نیست باشد روشنی ندہد ترا
کردہ باشد آفتاب او را فنا
(ستاروں کی) روشنی نظر نہیں آتی (کیونکہ) آفتاب اس (روشنی) کو فنا کردیتا ہے۔ یعنی دن میں ستارے مفقود النور نہیں بلکہ مغلوب النور ہوتے ہیں۔ اگر ان ستاروں کا وجود ختم ہوجاتا تو رات کو پھر ان کی روشنی کیوں نظرآتی۔ پتہ چلا کہ وجود ہے مگر آفتاب کے نور سے ان کی روشنی مغلوب یا بظاہر کالعدم ہوجاتی ہے۔ یہی مثال اللہ والوں کی ہے کہ حق تعالیٰ کی عظمت کے مشاہدہ سے اللہ والے اپنے وجود اور اس کی صفات سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔
درس بصیرت:
۱ زندگی کا مقصد اللہ تک رسائی کے لئے خود کو فنا کردینا ہے اور فنائیت کے بعد ہی بقا کی منزل نصیب ہوتی ہے۔
۲ فنا سے مراد اپنی نفسانی خواہشات کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردینا ہے۔
۳ خواہش نفس سے چھٹکارا بندہ (غلام) کو پادشاہ بنا دیتا ہے۔
۴ پھرتو خود بھی صاحبِ یقین ہوجائینگے اور دوسرے بھی یقین کی دولت سے مشرف ہونگے اور یہی ہے بندگی میں سلطانی۔
۵ اللہ والوں کا دیکھنا‘ سننا اور محسوس کرنا سب اللہ تعالیٰ کے نور کی بدولت ہے۔ ان کی صحبت میں رہنے والوں میں بھی یہی ا وصاف پیدا ہونے لگتے ہیں۔
۶ اس راہِ حق میں خدا سے غافل ہوکر غیرِ خدا کی طرف ذری بھی توجہ کرنامضر ہے۔۷حق تعالیٰ کی شانِ عظمت کے مشاہدہ میں محو ہوجانے کے بعد اللہ والے اپنے وجود اور صفات سے بے خبر ہوجاتے ہیں۔ تب ہی فنا فی اللہ کا انجام بقا باللہ حاصل ہوتا ہے۔