حضرت مولانا قاضی سیدشاہ اعظم علی صوفی قادری

تونے حسینؓ
مرنے کو
جینا بنا دیا

اسلامی سال کا آغاز ہو یا اختتام اپنے ہمراہ قربانی و ایثار کا ایک ابدی پیغام لے کر آتا ہے جو انسان کو اس کی زندگی کے حقیقی مقصد سے روشناس کرتا ہے۔ میدان منٰی میں ذبیح اللہ کا راہ حق میں قربان ہوتے وقت کمال صبر و رضا کا مظاہرہ ہو یا میدان کربلا میں سید الشہداء کی جانب سے خدا کی راہ میں اپنی اور اپنے کنبہ کی جانوں کو قربان کردینے کا تاریخ ساز کارنامہ ہو ہر دو میدان میں رونما دونوں واقعات میں اسی ابدی پیغام کی روح کارفرما ہے ؎
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
لیکن رضائے الٰہی کی خاطر پیش کردہ ان دونوں قربانیوں میں بظاہر ایک فرق یہ موجود ہے کہ جنت سے دنبہ کا فدیہ بھیج کر رب جلیل نے اپنے خلیل کے نور نظر کو زندگی و سلامتی بخشدی اور ذبح ہونے سے بچا لیا لیکن دشت کربلا میں امام عالی مقام نے اپنے نانا کے دین متین کی سربلندی کے لئے اپنے خانوادہ کے ایک ایک نونہال کو بچشم خود ذبح ہوتے ہوے دیکھا اور بالآخر خود بھی مسکراتے ہوے جام شہادت نوش فرمالیا۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ عالم میں اگرچہ بہت سے ایسے اندوہناک حادثات اور روح فرسا واقعات رونما ہوے ہیں جو دامن انسانیت پر بدنما داغ بن کر رہ گئے اور جن کی یاد کچھ عرصہ بعد دلوں سے محو ہوگئی لیکن کربلا کی سرزمین پر رسول کے نواسے علی کے پیارے فاطمہ کے دلارے نے خونی حرفوں سے جو کرب ناک داستانِ درد و غم لکھی ہے‘ ان کے نقوش آج چودہ سو سال بعد بھی نہ مٹ سکے اور نہ ہی قیامت تک مٹ سکیںگے۔ چنانچہ ہر سال ماہ محرم الحرام کا چاند جب بھی فلکِ شہادت پر طلوع ہوتا ہے تو شہادت حسین کی خونیں یاد پھر سے تازہ ہوجاتی ہے اور اس سنگین اور قیامت نما واقعہ کی یاد میں ہر عاشق رسول کی چشم اشک بار اور قلب بیقرار ہوجاتا ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ قدرت نے بھی اس مقدس و یادگار قربانی کے لئے ایک مقدس و یادگار دن کا ہی انتخاب کیا۔ چنانچہ کائنات ارضی و سماوی کے ظہور اولین کا دن‘قیام عرش اور قیامت قائم ہونے کا دن‘ صفی اللہ کی توبہ قبول ہونے کا دن‘ طوفان میں نجی اللہ کی کشتی جودی پہاڑ سے ہمکنار ہونے کا دن‘ خلیل اللہ کیلئے نار کو گلزار کردئے جانے کا دن‘ حق کی فتح اور باطل کی موت کا دن یعنی یوم عاشوراء ہی وہ دن ہے جبکہ سانحہ کربلا وقوع پذیر ہوا۔ یوں تو یوم عاشوراء پہلے ہی سے ہزاروں سعادتیں اور رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹے ہوے ہے۔ لیکن خون حسین کی تابانیوں نے اس دن کو اور بھی منور و مقدس بنادیا اور یوم عاشوراء کی سربلندی اور شہرتِ تامہ کو چار چاند لگادئیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معرکۂ کربلا سے قبل بھی دنیا میں بڑے بڑے صلحا و اولیاء اللہ بلکہ انبیاء کرام نے بھی شہادت کا درجہ حاصل کیا ہے اس خیال سے یہ وسوسہ بھی دامن گیر ہو سکتا ہے کہ ایک غیر نبی یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو پھر اس قدر اہمیت اور فضیلت کیوں دی جاتی ہے۔ بظاہر یہ سوال بڑا باوزن بھی محسوس ہوتا ہے مگر عالم الغیب و الشھادۃ نے سید انس و جاں کی زبان حق ترجمان کے ذریعہ خود اپنے ہی فرمان سے ایسے تمام گمراہ کن حجابات کو تار عنکبوت کی طرح چاک اور آلودئہ خاک فرمادیا۔ چنانچہ ’ ’ماثبت من السنہ‘‘ میں محدث حاکم نے بی بی زینب بنت حجش کی روایت سے یہ حدیث لکھی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’حق تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی کہ میں نے یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے بدلے ستر ہزار قتل کئے اور تمھارے نواسے کے بدلے اے محبوب ! اس کے دوگنے یعنی دو ستر ہزار قتل کروں گا‘‘مالک الملک کے اس فرمان کے بعد اب کس کو یہ جرأت ہوگی کہ فرق مراتب کا کوئی شکوہ کرے۔ پھر یہ پیشین گوئی تو تھوڑے ہی عرصہ بعد مختار بن عبیدہ کے دور حکومت میں حرف بہ حرف صحیح بھی ثابت ہوگئی۔
معرکۂ کربلا کا تجزیہ کرنا ہو تو پہلے امام عالی مقام کی شخصیت کا جائزہ لینا ہوگا‘ حسین کے منصب جلیلہ کو دیکھنا ہوگا‘ مقام شبیری کی عظمت و رفعت سے شناسائی حاصل کرنی ہوگی۔ آپ کی درخشندہ شہادت کی تابانیوں کا مشاہدہ کرناہوگا۔ اہل بیت رسول کی کہکشاں میں حسین ایک درخشاں ستارے بھی ہیں‘ گلستانِ رسالت کی ابدی بہار بھی ہیں اور چمنستان علی و زہرا کے خوش نظر مہکتے ہوے پھول بھی ہیں۔ آپ کی رفعت وفضیلت بیان کرنے کا حق بھلا ہم کیا ادا کرسکتے ہیں جبکہ اہلبیت رسول کی تعریف و توصیف‘ تقدیس و تطہیر اور عظمت و ستائش خود قرآن پاک کی آیات بینات بیان کر رہی ہیں۔ علاوہ ازیں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کئی مواقع پر اپنے نواسوں کے فضائل کا علی الاعلان اپنے خطبات عالیہ میں ذکر جمیل فرمایا ہے۔ چنانچہ قرآن میں سورئہ احزاب کی مشہور آیت تطہیر قیامت تک اعلان کر رہی ہے کہ :’’اے نبی کے گھر والو بس خدا یہی چاہتا ہے کہ ناپاکی کو تم سے دور فرمادے اور تمھیں خوب پاک اور ستھرا کردے۔‘‘اسی طرح سورئہ اٰل عمران کی آیت مباہلہ اہلبیت رسول کی نہ صرف حقانیت و صداقت کی دلیل ہے بلکہ اس میں ان کے مخالفین کو کذاب یعنی جھوٹے قرار دیتے ہوے لعنت الٰہی کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح کئی احادیث نبوی میں سے مشتے نمونہ دو ارشادات یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ غدیر خم کے تالاب کے پاس صحابہ کرام سے خطابِ تاریخی فرماتے ہوے حضور ختمی مرتبت نے فرمایا کہ: ’’اے لوگو ! میں تمھارے اندر دو بھاری چیزیں چھوڑ جارہا ہوں۔ ان دونوں میں سے ایک توکتاب اللہ یعنی قرآن ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے لہٰذا تم لوگ اللہ کی کتاب کو تھام لو اور مضبوطی کے ساتھ اس پر عمل پیرا رہو۔ دوسری بھاری چیز میرے اہل بیت ہیں اور پھر دوبار اسطرح تاکید فرمائی کہ میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔‘‘یعنی تم لوگ اللہ سے ڈرتے رہو کہ کہیں میرے اہل بیت کا حق ادا کرنے میں تم سے ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ اس کے علاوہ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی ایک لاکھ سے زائد صحابہ کے مجمع میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح اعلان فرمایا : ’’اے لوگو ! میں نے تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑی ہیں کہ جب تک تم ان کے دامن کو تھامے رہوگے تو ہر گز تم کبھی گمراہ نہیں ہونگے وہ ہیں اللہ کی کتاب (قرآن مجید) اور میری اولاد جو میرے اہل بیت ہیں‘‘۔
مذکورہ بالا قرآنی آیات اور مشکوٰۃ شریف کی یہ دونوں احادیث آفتاب کی طرح روشن اس حقیقت سے آگاہ کر رہی ہیں کہ قرآن اور اہلبیت دونوں کے مابین ایک اٹوٹ ابدی رشتہ قائم ہے جو نہ صرف دنیا کی حد تک ہے بلکہ ایک اور ارشاد نبوی ہے کہ: ’’قرآن اور میرے اہل بیت ہمیشہ ساتھ رہیں گے حتیٰ کہ حوض کوثر پر بھی یہ دونوں اکھٹے ہم سے ملاقات کریںگے‘‘۔ جسکے بموجب یہ رشتہ مقدس دنیا سے لیکر آخرت تک باقی و برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے حسین کی شان بیان کی تو حسین نے کربلا میں قرآن کے شایان شان کردار کو پیش کیا۔
حسین کی عظمت کا اعلان قرآن نے کیا تو قرآن کی عظمت کا علم کربلا میںحسین نے بلند کیا۔ قرآن نے حسین کا احترام بیان کیا تو حسین نے لمحۂ آخر تک قرآن کے احترام کو اپنے سینے سے لگائے رکھا۔دشت کربلا میں کتاب اللہ ایک قرآنِ خاموش ہے تو حسین سبط رسول اللہ ایک قرآنِ ناطق بن کر چھائے ہوے ہیں۔ امام تشنہ کام نے محض ناموس قرآن کے تحفظ ہی کی خاطر مدینہ کی بہاروں کو چھوڑ کر دشت نینوا کے لق و دق ریگزار میں آنا گوارا فرمایا اور پھر دنیا کو دکھلادیا کہ حسین اپنا سر تو دے سکتا ہے اپنے خیموں پر آنچ آنے دے سکتا ہے مگر قرآن کے احکام پر ذرہ برابر آنچ آنے نہیں دے سکتا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے نوجوانوں کی جوانی لٹا سکتا ہے لیکن قرآن کی آبرو لٹنے نہیں دے سکتا۔ قرآن کے ایک ایک حرف کے تحفظ میں اپنے خون کے ہر ہر قطرہ کو بہا سکتا ہے اور خود کٹ سکتا ہے مگر قرآن کے کسی حرف کو مٹنے نہیں دے سکتا۔ یہی سبب ہے کہ قرآن جسطرح صبح قیامت تک زندہ و پائندہ ہے اسی طرح جام شہادت نوش کرلینے کے بعد حسین کی حیات بھی ابدی طور پر زندہ و پائندہ ہے۔ بلکہ مابعد شہادت واقعات شاہد ہیں کہ مظلوم اہلبیت کا قافلہ جب دمشق کی گلیوں میں داخل ہوا تو حضرت زید بن ارقم صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے اپنے کانوں سے برملا سنا کہ شہید سرِ حسین کے لب ہائے اقدس پر یہ قرآنی آیت جاری ہے ’’اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ لا کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًاO‘‘ (کہف۔۹) یعنی’’کیا تمھیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی ہے‘‘ یہ سنکر صحابی رسول کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوگئے جنھوں نے بے ساختہ کہا ’’اے ابن رسول ! واقعی آپ کا واقعہ تو ان سے بھی زیادہ عجیب ہے۔‘‘ اسی طرح جب ابن زیاد کے دربار میں آپ کا سر اقدس لاکر رکھا گیا تو لوگوں نے دیکھا آپ کے لب ہائے مبارک جنبش کر رہے ہیں۔ کان لگا کر سننے پر پتہ چلا کہ سورئہ ابراھیم کی اِس آیت کی تلاوت سید الشہداء فرما رہے ہیں ’’ولا تحسبن اللہ غافلاً عما یعمل الظّٰلمون‘‘(ابراھیم۔۴۲) یعنی ’’ظالموں کے کام سے اللہ کو ہرگز بے خبر نہ جاننا۔‘‘ یہ سب اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ ایک شہید اپنی جان کو جان آفریں کے سپرد کرنے کے بعد بھی ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ زندگی میں حسین کی ایک ایک ادا تو یقینا قرآن کی آئینہ دار تھی لیکن شہادت کے بعد بھی تاقیامت قرآن اور حسین کے درمیان کبھی نہ ٹوٹنے والا دائمی رشتہ برقرار و قائم ہے۔
سانحۂ کربلا سے قبل کا پس منظر شاہد ہے کہ یزید اس آئین شریعت کو مسخ کرنا چاہتا تھا جسے رسول ہاشمی نے سینکڑوں مصائب و مشکلات برداشت کرکے قائم فرمایا تھا۔ یزید اس قرآنی دستور کو پارہ پارہ کرنا چاہتا تھا جس کی حفاظت کے لئے خلیفہ اول صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے نحیف و لاغر جسم کو ڈھال بنائے رکھا تھا۔ یزید اس اذان کو خاموش کردینا چاہتا تھا جس کے علی الاعلان اہتمام کیلئے فاروق اعظم خلیفہ دوم رضی اللہ عنہ نے اپنی جان کا خطرہ مول لیا تھا۔
(سلسلہ سپلیمنٹ کے صفحہ … پر )
یزید اس دین متین کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا تھا جس دین کو قطع و برید سے بچانے کی خاطر خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم مقدس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونا برداشت کر لیا تھا۔یزید اس اسلام کی بیخ و بن ہلا دینے کے لئے پرتول رہا تھا جس اسلام کو خلیفہ چہارم علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کی ضرب یداللہی اور قوت خیبر شکن نے زندگی دی تھی۔ ایسے بھیانک اور تاریک ماحول میں یزید کے ناپاک منصوبوں کا مقابلہ حسین نہ کرتے تو پھر کون کرتا۔ حدود شریعت مطہرہ کی حفاظت کیلئے حسین نہ اُٹھتے تو پھر کون اٹھتا۔
ناموس قرآن کے تحفظ کے لئے حسین آگے نہ بڑھتے تو پھر کون بڑھتا مگر دین اسلام کو بچانے کیلئے امام حسین کو بڑے دل دوز اور جگر سوز منازل سے گزرنا پڑا۔ میدان کربلا کی تپتی ریت‘ آفتاب کی شدید تمازت‘ پھر خیموں کے اطراف سلگی ہوی آگ گویا اوپر نیچے اور اطراف ہی نہیں بلکہ شکم کے اندر بھی بھوک و پیاس کی آگ کا صبر آزما سامنا ہے ۔ حد ہوگئی کہ ایک ایک کرکے جب سارے جانثاروں نے اپنی جانیں میر کارواں پر قربان کردیں تو اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کو خاک و خون میں تڑپتے پھڑکتے حسین نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اٹھارہ برس کی قابل رشک جوانی والے نور نظر علی اکبر کی بہار شباب کو لٹتے ہوے حسین نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ گلشن زہرا کے نو شگفتہ غنچے معصوم شیرخوار علی اصغر کو کھلنے سے پہلے مسلتے ہوے حسین نے خود اپنی ہی آنکھوں سے دیکھا۔ امام تشنہ کام کے لئے اب کونسا امتحان باقی رہ گیا تھا کہ آپ کو آزمایا نہ گیا ہو۔ بالآخر جب خود اپنی متاع حیات کو خدا کی نذر کرنے کا وقت آپہونچا تو اس نازک موڑ پر بھی آپ نے اپنے نانا جان کے اسوئہ حسنہ کی پوری پاسداری کرتے ہوے صبر و شکر کا مکمل مظاہرہ فرمایا اور بندگی پر کوئی حرف آنے نہ دیا۔ صبر و رضائے الٰہی کی آخری منزل پر تلواروں کے سایہ میں‘ اپنی جان سپرد حق کرنے سے قبل حسین نے ایک بے مثال سجدئہ عبودیت ادا کیا جو غالباً اس جذبہ تشکر کا اظہار تھا ؎
جان دی ‘ دی ہوی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اگرچہ سجدہ امام ہمام کی نماز کا پہلا سجدہ تھا مگر آپ کی زندگی کا یہی آخری سجدہ تھا جس کی نظیر قیامت تک نہ مل سکے گی۔ ایسا سجدہ کہ جس پر خود عبادت کو ناز ہو‘ ایسا سجدہ کہ جس پر حرم کو ناز ہو‘ ایسا سجدہ کہ جس پر خود عرش اعظم کو ناز ہو کیونکہ یہی وہ سجدئہ نیاز تھا کہ جس نے حضرت آدم اور ساری انسانیت کو ’’کرمنا بنی آدم‘‘ کا تاج شرافت پہناکر فرشتوں سے نہ صرف ممتاز بنادیا بلکہ اشرف المخلوقات کے خلعت زیبا سے نوا زدیا ؎
وہ اک سجدہ‘ ہوا جو خاک و خوں میں‘ آج تک اس پر
حرم کیا عرش اعظم کی جلالت ناز کرتی ہے
اور پھر ظالم اشقیا نے جب آپ کے کٹے ہوے سر اقدس کو نیزے پر چڑھاکر گلی گلی گھمایا تو اس دردناک منظر کو قدرت اپنی زبان حال سے یوں خراج تحسین پیش کر رہی تھی کہ
’’حق ہمیشہ سربلندہی رہتا ہے اور صداقت کو ہمیشہ سرفرازی ہی نصیب ہوتی ہے۔‘‘
ادھر ملائکہ کی صفیں کربلا کے شہنشاہ کو یوں سلامی پیش کر رہی تھیں
سلام اے امام عالی مقام تیرے صبر وتحمل پر سلام۔
سلام اے امام ہمام تیرے عزم و استقلال پر سلام۔
سلام اے امام تشنہ کام تیری استقامت و دلاوری پر سلام۔
سلام اے فاطمہ کے لال تیری جرأت و جوانمردی پر سلام۔
سلام ان نو شگفتہ غنچوں پر جنھیں میدان کربلا میں وقت سے پہلے مسل دیا گیا۔
سلام ان نو خیز پھولوں پر جو اپنے شباب پر پہنچنے سے پہلے شاخِ حیات سے توڑ لئے گئے اور جنکی ایک ایک پتی ریگزار کربلا پر بکھرادی گئی۔
سلام اس گلگلوں قبا شہادت کے دولہا پر جس کے خون نے کربلا کی تپتی ہوی زمین کو لالہ زار بنا دیا۔
آج جبکہ تمام عالم اسلام انتہائی صبر آزما ابتلا و آزمائش سے دو چار ہے اور جگہ جگہ ناکامیوں اور رسوائیوں کا سامنا ہے اس کا واحد سبب حق و صداقت کی سربلندی کے لئے جذبہ قربانی کا مسلمانوں میں فقدان ہے۔ جب تک مسلمانوں میں جد و جہد کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا وہ اوروں کے دست نگررہیں گے اور بساطِ عالم پر ان کی حیثیت صفر کے برابر رہے گی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کی ہر موڑ پر ایک طرف قرآن سے عملی وابستگی کو مستحکم کرے اور دوسری طرف اسوئہ حسینی کو مشعل راہ بناکر خود کو مجسم اخلاق و کردار اور میدان عمل میں ایثار و قربانی کا پیکر بنا لے۔ یہی مسلمان کی نجات کا ذریعہ ہے۔ اسی میں کھوئی ہوی عظمت رفتہ حاصل کرنے کا راز مضمر ہے اور اسی میں دینی و دنیاوی عظمت و سرخروئی کی بشارت ہے۔