حضرت فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی مشغولیات

ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی

شیخ الاسلام حضرت مولانا ابوالبرکات محمد انواراللہ رحمۃ اللہ علیہ المخاطب بہ خان بہادر نواب فضیلت جنگ نے بمقام ناندیڑ بتاریخ ۴؍ ربیع الآخر ۱۲۶۴ھ اس دنیائے رنگ و بو میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد ماجد کا اسم شریف قاضی ابومحمد شجاع الدین تھا، قندھار کے قاضی گھرانے سے تعلق تھا، جن کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔
حضرت شیخ الاسلام کی ابتدائی تعلیم و تربیت والد بزرگوار کی زیر نگرانی ہوئی۔ حضرت حافظ امجد علی نے خاص توجہ سے قرآن مجید حفظ کروایا۔ بعد ازاں حدیث، تفسیر اور فقہ کی تعلیم اُس دَور کے جید علماء سے حاصل کی۔ متداولہ علوم کی تحصیل کے بعد سلوک کی تعلیم اپنے والد محترم سے ہی پائی، جملہ سلاسلِ طریقت میں بیعت کی اور خرقۂ خلافت سے ممتاز ہوئے۔

حضرت شیخ الاسلام کی عائلی زندگی کا آغاز محتسب بنولہ مولوی محمد امیر الدین صاحب کی صاحبزادی کے ساتھ عقد نکاح سے ہوا اور بہ عمر ۲۱سال محکمۂ مال گزاری میں ملازمت اختیار کی۔ بمشکل ڈیڑھ سال اس خدمت سے منسلک رہے، پھر ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ والد ماجد کی وفات اور ترک ملازمت کے ظاہری اسباب کے باعث سخت معاشی مسائل پیدا ہوئے، لیکن آپ نے متوکلانہ زندگی بسر کی اور سب سے شریف مشغلہ یعنی درس و تدریس کو اختیار کیا۔ مدرسہ نظامیہ کے قیام کے دو سال بعد آپ نے حرمین شریفین کا عزم کیا اور اللہ پر کامل توکل کے ساتھ رختِ سفر باندھا۔ اس مبارک سفر میں آپ نے عارف باللہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت پایا اور منازلِ سلوک طے کرنے کے بعد ان ہی سے نعمتِ خلافت بھی پائی۔ بعد ازاں حیدرآباد لوٹ آئے۔ حجاز مقدس سے واپسی کے بعد آصف جاہ سادس نواب میر محبوب علی خاں بہادر کی تعلیم و تربیت کے لئے تقرر عمل میں آیا۔ شاہی اتالیق ہونے کے باوجود حضرت شیخ الاسلام نے ملی خدمات کے سلسلے کو ترک نہیں کیا، بلکہ درس و تدریس کے ذریعہ ملت اسلامیہ کی تعلیمی رہنمائی کو جاری رکھا اور تصنیف و تالیف کے مشغلہ سے بھی وابستہ رہے۔

آصف جاہی دربار سے شاہی خطاب اور منصب کی عطا کے بعد ۱۳۰۱ھ میں دوبارہ حج و زیارت کے لئے حجاز مقدس کا سفر کیا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ نے ۱۳۰۴ھ میں انتقال کیا۔ حضرت شیخ الاسلام کا تیسرا سفر حرمین شریفین اس لحاظ سے بڑا اہم ثابت ہوا کہ آپ نے اس دفعہ تین سال تک مدینہ منورہ میں قیام کی سعادت پائی اور اپنے قیام کے زمانے میں مدینہ منورہ کے کتب خانوں سے علمی نوادرات کی نقلیں تیار کروائیں اور تصنیف و تالیف کے مبارک کام کا تسلسل بھی برقرار رکھا۔ وہیں پر آپ کی ہمشیرہ صاحبہ اور فرزند دلبند کا انتقال ہو گیا۔ ان حادثات سے قبل ہی آپ علیل ہو گئے تھے، دن بہ دن حالت گرتی جا رہی تھی۔ یہ دیکھ کر آپ کے ہمراہیوں اور احباب نے حیدرآباد واپس ہونے کا مشورہ دیا۔ آپ نے استخارہ کیا اور اجازت ملنے پر بڑے بھاری دل کے ساتھ دیارِ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم سے وداع ہوئے۔ حضرت کی دِلی تمنا تھی کہ مدینہ منورہ میں ساری زندگی گزاریں، لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا کہ آپ کے ذریعہ دین کی وسیع تر علمی خدمت ہو۔ حضرت شیخ الاسلام مکہ مکرمہ آئے، چوں کہ ایام حج تھے، لہذا ادائیگی حج کے بعد حیدرآباد دکن مراجعت ہوئے۔ نواب میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس نے آپ کی مراجعت پر اظہار مسرت کرتے ہوئے اپنے فرزند نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کی تعلیم پر آپ کو مقرر کیا۔ کم و بیش بارہ سال آپ نے آصف سابع کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اسی دوران حضرت شیخ الاسلام نے بلاد اسلامیہ، مقامات مقدسہ اور پیرانِ سلسلہ کے مزارات کی زیارت کے لئے جماعت کثیرہ کے ساتھ سفر کیا۔

آصف جاہ سابع نے اپنی تخت نشینی کے بعد استاد محترم حضرت شیخ الاسلام کو ناظم امور مذہبی صدر الصدور صوبہ جات دکن کے عہدہ پر فائز کیا۔ بعد ازاں وزارت مذہبی کے فرائض آپ کے تفویض کئے۔ پھر اپنے دونوں شہزادوں کی تعلیم بھی آپ سے متعلق کردی۔ ۱۳۳۵ھ میں جشن سالگرہ کے موقع پر فضیلت جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ اسی سال آپ نے آصف سابع کے ساتھ ورنگل کا سفر کیا۔ اثناء سفر ریل کے ایک واقعہ میں اندرونی چوٹ کے باعث علیل ہو گئے، جس کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ اوائل ۱۳۳۶ھ میں آپ دوبارہ علیل ہوئے۔ ڈاکٹر عبد الحسین کے مشورہ پر عمل جراحی کی گئی، تاہم افاقہ کی کوئی صورت نہ نکلی۔ آخرش ۲۹؍ جمادی الاول ۱۳۳۶ھ کو علم و عرفان کا یہ آفتاب دنیا کی نظروں سے غائب ہو گیا۔ جامعہ نظامیہ میں آخری آرامگاہ بنی۔

حضرت شیخ الاسلام کی زندگی بڑی سیدھی سادی اور شریعت مطہرہ کی پابندی کے لحاظ قابل تقلید نمونہ تھی۔ غذا بہت ہی سادہ تھی، لباس بھی تکلفات سے بَری رہا کرتا۔ جبہ و عمامہ پہنا کرتے، بعض دفعہ عمامہ پر چادر اوڑھ لیا کرتے۔ نماز کے وقت خوب اہتمام و زینت فرماتے۔ آپ کے پاس مختلف ادوار میں مختلف سواریاں رہیں۔ رات میں بارہ بجے سے تین بجے تک استراحت فرماتے، مابقی سارا وقت علمی مشاغل، درس و تدریس، عبادت و ریاضت اور ذکر و مراقبہ میں گزرتا۔ سرکاری خدمات اور مفوضہ فرائض کی ادائیگی میں کسی بھی وقت تعطل یا فرق نہیں آسکا۔ دن میں دو تا تین گھنٹے قیلولہ کرتے۔ خانگی زندگی اسلامی سادگی کا اعلیٰ نمونہ تھی۔

حضرت شیخ الاسلام کو مطالعہ کا بہت شوق تھا، آپ نے زندگی بھر نہایت ہی اعلیٰ پائے کی قدیم و جدید کتابیں جمع کیں۔ آپ کے کتب خانہ میں کئی ہزار بیش قیمت اور نایاب کتابوں کا ذخیرہ تھا، جسے آپ نے جامعہ نظامیہ کے لئے وقف کردیا۔ علوم دین کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں ہمیشہ دامے، درمے، قدمے، سخنے، قلمے مصروف رہے۔ اپنی ذات سے اور اپنے سرکاری رسوخ سے اس مبارک کام کے لئے ممکنہ اعانت کرتے اور کرواتے رہے۔ حضرت فضیلت جنگ کی کوششوں سے ایسے بیسیوں مدارس اور دینی ادارے قائم ہوئے، جن کی آپ نے ممکنہ امداد فرمائی۔ اصلاح معاشرہ کے ضمن میں آپ کی خدمات کو اہل دکن صدیوں فراموش نہیں کرسکیں گے۔ مدینہ منورہ کے قیام کے زمانے میں مرتب کردہ کتاب مستطاب انوار احمدی و نیز کتاب العقل، حقیقۃ الفقہ (دو حصے)، مقاصد الاسلام (گیارہ حصے) کے علاوہ دیگر کئی کتابیں آپ کی یادگار ہیں۔
انجمن اشاعت العلوم دائرۃ المعارف النظامیہ، کتب خانہ نظامیہ، کتب خانہ آصفیہ، جامعہ نظامیہ وغیرہ حضرت شیخ الاسلام کی دینی، اصلاحی، دعوتی، تبلیغی، علمی اور اشاعتی جذبۂ عمل کے آئینہ دار ہیں، بالخصوص جامعہ نظامیہ آپ کی وہ عظیم الشان یادگار ہے، جس کا فیضان علمی جاری ہے۔