آئی ہرک کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی اور پروفیسر سید محمد حسیب الدین کا لیکچر
حیدرآباد ۔7ستمبر( پریس نوٹ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیض صحبت سے سرفراز صحابہ کرام نے قریش کی ہر اذیت رسانی، بدزبانی، جور و ظلم کو سہا لیکن جادہ حق پر استقامت کے ساتھ قائم و برقرار رہے روز اولی سے ہی دین حق کی مقبولیت اور اسلام کے بڑھتے ہوے اثر سے کفار قریش بھنّاگئے ان کا غصہ غریب مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا انھوں نے ممکنہ طریقوں سے مسلمانوں کو ستانا شروع کیا جور و ستم کا کوئی تیر باقی نہ رکھا قریش کے مظالم کے بادل جب گہرے ہو تے گئے تو رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تا کہ مسلمان اپنے ایمان کی سلامتی اور دین پر ثبات قدم کا سامان کر سکیں۔حبشہ کی جانب صحابہ کرام کی دو ہجرتیں ہوئیں پہلی ہجرت میں گیارہ صحابہ اور پانچ صحابیات تھیں جب کہ دوسری ہجرت میں بہ اختلاف روایات ۸۶ صحابہ کرام اور ۱۷ صحابیات شامل تھیں۔ پہلی ہجرت کے صحابہ کرام و صحابیات نے تقریباً چار ماہ حبشہ میں قیام کیا اور جب ایک خبر پہنچی کہ اہل مکہ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو یہ لوگ حبشہ سے واپس ہوے لیکن انھیں واپسی کے دوران مکہ کے قریب پتہ چلا کہ وہ خبر غلط تھی اب ان لوگوں کے لئے بڑا مسئلہ تھا کہ کیا کیا جاے چنانچہ سبھی نے مکہ پہنچنے کا فیصلہ کیا اورانھوں نے ممکنہ احتیاط سے یا بعض نے کسی نہ کسی کی پناہ حاصل کر کے مکہ مکرمہ میں قدم رکھا۔ مشرکین مکہ نے یہ دیکھ کر انھیں اور زیادہ پریشان کرنا شروع کر دیا ۔جب ان کے جور و ستم بہت زیادہ ہو گئے تو حضور اقدسؐ نے مظلوموں کو اجازت دی کہ وہ جانب حبشہ پھر ہجرت کریں۔ اس دفعہ صحابہ کرام کی بڑی تعداد نے سعادت ہجرت حاصل کی اس ہجرت کو ہجرت ثانیہ سے موسوم کیا جاتا ہے جس میں شامل بزرگوں میں حضرت عمروؓ بن عثمان کا اسم گرامی بھی نمایاں طور پر ملتا ہے۔ان حقائق کے اظہار کے ساتھ ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی اور دو بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی، مالاکنٹہ روڈ،روبرو معظم جاہی مارکٹ میں اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا (آئی ہرک) کے زیر اہتمام منعقدہ 1111 ویں تاریخ اسلام اجلاس کے علی الترتیب پہلے سیشن میں احوال انبیاء علیھم السلام کے تحت حضرت الیسع علیہ السلام کے مقدس حالات اوردوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے ضمن میں حضرت عمرو بن عثمانؓ کے احوال شریف پر مبنی توسیعی لکچر دئیے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے دونوں سیشنس کا آغاز ہوا۔اہل علم حضرات اور باذوق سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی۔ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوے کہا کہحضرت عمروؓ بن عثمان ان عظیم المرتبت صحابہ میں شامل تھے جنھیں ابتداء دعوت کے زمانہ میں شرف ایمان حاصل ہوا اور دین حق اختیار کرنے کے ضمن میں قریش کی زبردست مخالفتوں اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم وہ استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور رسول اللہؐ کے ارشادات کی اتباع کے تابناک راستے پر گامزن رہے۔ حضرت عمروؓ بن عثمان بلحاظ نسب قریش کے خاندان تیم بن مرّہ سے تعلق رکھتے تھے قریش کی یہ شاخ مکہ میں نہایت با اثر سمجھی جاتی تھی۔ ان کا اسم مبارک ہی معروف ہے ان کی کنیت کے بارے میں ارباب سیر خاموش ہیں البتہ کتب الانساب میں حضرت عمروؓ کا سلسلہ نسب موجود ہے ان کے والد عثمان بن عمرو تھے۔ ڈاکٹر حمید الدین شرفی نے کہا کہ حضرت عمروؓ بن عثمان مکہ مکرمہ کے قدیم الاسلام اصحاب میں بڑے رتبہ کے حامل تھے۔ اللہ کی راہ میں ہر چیز قربان کر دینے کا جذبہ عظیم سوے حبشہ ہجرت کے واقعہ سے ہویدا تھا۔ انھوں نے طویل عمر پائی۔اسلام کے لئے ان کی خدمات اور جوش جہاد کا ثبوت ان کا امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد مبارکہ میں ایران پر اقدام میں شرکت سے ملتا ہے۔ حضرت عمروؓ بن عثمان کی دلی تمنا جام شہادت نوش کرکے بارگاہ الٰہی میں سرخروئی حاصل کرنا تھا۔ چناں چہ ان کی یہ قلبی آرزو معرکہ قادسیہ میں پوری ہوئی دین حق کی حفاظت و سربلندی کے ضمن میں انھوں نے شہادت پائی۔ ہجرت اور شہادت دونوں اعزاز ان کی حیات ایمانی کے دو نورانی پہلو ہیں۔