حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ

مولانا غلام رسول سعیدی

پروردۂ رسول، اقلیم ولایت کے تاجدار، عبادت و ریاضت میں مسلمانوں کے پیشوا، زمانۂ رسالت میں بدر سے لے کر آخری غزوہ تک میدانِ شجاعت کے تاجدار، خصوصاً معرکۂ خیبر کے شہسوار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم خوار، خلفائے ثلاثہ کے خیرخواہ، تمام صحابہ کے محبوب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محب صادق، جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کا مژدہ دیا۔ جن سے بغض رکھنا کفر، جن سے محبت کرنا ایمان۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ لاڈلی صاحبزادی، جو مجلس میں آئیں تو آپﷺ کھڑے ہو جائیں، جن کی سواری میدانِ محشر سے گزرے تو تمام اہل محشر کی گردنیں جھک جائیں۔ ایسی گرامی مرتبت شہزادی خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شوہر۔ جنت کے جوانوں کے سردار حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے والد، سلسلۂ نسل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بانی، جو اگر صدقہ دیں تو قرآن ناطق ہو اور جن کے رکوع و سجود پر قرآن پاک شاہد۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ عم زاد، جن کی سرکار ناز برداری کریں، جن کو تہجد پڑھوانے کے لئے حضور راتوں کو جگانے آئیں، جو اگر روٹھ جائیں تو سرکار انھیں منانے آئیں اور اسی عالم میں سرکار سے ’’ابوتراب‘‘ کا لقب پائیں۔ جس سے وہ ناراض ہو جائیں، وہ سرکار کا معتوب اور جس سے وہ راضی ہو جائیں وہ سرکار کا محبوب ہو۔ اندھیری راتوں میں ساحلِ مراد تک پہنچنے کے لئے جہاں آسمانِ ہدایت کے ستاروں کے بغیر گزارہ نہیں، وہاں ان کے سفینہ کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ وہ پیدا ہوئے تو کعبہ میں، شہادت پائی تو مسجد میں، جن کی زندگی کا محور آغاز سے انجام تک اللہ تعالیٰ کا گھر تھا۔ جب تک دنیا میں رہے تو اللہ کی خاطر اور دنیا سے گئے تو اللہ کی خاطر۔ جنھوں نے اپنے شہزادوں کو ایسی تربیت دی کہ دونوں نے شہادت پائی۔ یہ سارا خاندان ہی شہداء کا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور یہ خاتم الخلفاء تھے۔ یہ وہ ہیں کہ جن کی محبت میں جینا عبادت ہے اور جن کی محبت میں مرنا شہادت ہے۔ اسی ذات گرامی کو حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کہتے ہیں۔ آپ کا نام علی بن ابی طالب تھا، کنیت ابوتراب اور ابوالحسن تھی اور حیدر آپ کا لقب تھا۔ آپ نجیب الطرفین ہاشمی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے عم زاد تھے۔
خاندان بنوہاشم کو سرزمین عرب اور قریش کے تمام قبائل میں جو عظمت اور بزرگی حاصل تھی، وہ عرب کے کسی اور قبیلہ کو حاصل نہیں تھی۔ اسی باوقار خاندان میں حضرت علی کرم اللہ تعالی وجہہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے ہمیشہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور ہر موقع پر آپﷺ کی حمایت کی۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا اور مستند روایات کے مطابق ہجرت کرکے مدینہ منورہ گئیں۔ جب ان کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک سے ان کا کفن بنایا، قبر میں لیٹ کر اس کو متبرک کیا اور دفن کے بعد دعا مانگی: ’’اے اللہ! فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما، ان کی قبر کو کشادہ کر، اپنے نبی اور تمام پہلے نبیوں کے وسیلہ سے‘‘۔
ابوطالب کثیر العیال تھے اور انتہائی عسرت کے ساتھ گزر اوقات ہوتا تھا، اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا: ’’ہمیں اس پریشانی میں اچھا خاصا ہاتھ بٹانا چاہئے‘‘۔ چنانچہ حسب ارشاد جعفر کی کفالت حضرت عباس نے اپنے ذمہ لی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ انتخاب نے حضرت علی کو پسند کیا۔ چنانچہ شروع سے ہی حضرت علی، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور آغوش پرورش میں رہے۔ (طبرانی، ابن حبان، حاکم)
حضرت علی کی عمر ابھی دس سال ہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے اعلان نبوت کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ہی نماز بھی فرض ہو گئی۔ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ تعالی عنہا نماز پڑھ رہے تھے اور حضرت علی حیرت سے اس نئے منظر کو دیکھ رہے تھے۔ آپ نے حضور سے پوچھا: ’’یہ سب کیا تھا؟‘‘۔ آپﷺ نے اللہ تعالی کی توحید، اپنے منصب نبوت اور نماز وغیرہ کے بارے میں خبر دی اور ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ایک دن کے غور و فکر کے بعد حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے اسلام قبول کرلیا۔ (اقتباس)