حضرت عثمان غنی کی تواضع و انکساری

مولانا غلام رسول سعیدی

ایک دفعہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پچاس درہم قرض لیا۔ کچھ دنوں بعد جب واپس دینے کے لئے آئے تو حضرت عثمان غنی نے لینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ’’یہ تمہاری مروت کا صلہ ہے‘‘۔ (تاریخ طبری،ج۳،صفحہ۱۳۹)
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کتابت میں بہت مہارت تھی اور بے حد خوشنویس تھے، اس لئے قرآن کریم کی کتابت کا کام آپ ہی کے ذمہ تھا۔ جب کبھی کوئی آیت نازل ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بلواکر وہ آیت لکھوا لیتے۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ رات کے وقت ایک آیت نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت حضرت عثمان سے وہ آیت لکھوائی۔ (کنزالعمال)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد بار حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنت کی بشارت دی، اس کے باوجود خوفِ خدا کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ ڈاڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہوجاتی۔ کسی نے آپ سے اس قدر گریہ کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ ’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے، اگر یہاں آسانی ہو تو سب منازل آسان ہو گئیں اور اگر یہاں دشواری ہوئی تو باقی منازل اس سے زیادہ دشوار ہو گئیں‘‘۔ (ترمذی و مشکوۃ)

باوجود مال و دولت کی فراوانی کے ہمیشہ زاہدانہ زندگی اختیار کی۔ قز نام کا ایک خوبصورت رومی کپڑا تھا، جس کو متوسط طبقہ کے لوگ بھی پہنا کرتے تھے، لیکن آپ نے وہ کپڑا نہ تو خود کبھی استعمال کیا اور نہ ہی اپنی ازواج کو استعمال کرنے دیا۔ تواضع اور سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں بیسیوں علام اور باندیوں کے باوجود اپنا کام خود کیا کرتے تھے۔ رات کو تہجد کے لئے اُٹھتے اور وضو وغیرہ کا سامان خود مہیا کرتے، کسی خادم کو جگاکر اُس کی نیند خراب نہ کرتے۔ اگر کوئی سخت اور ناگوار بات کہتا تو اس کو نرمی سے جواب دیتے۔ ایک دفعہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اثنائے گفتگو میں آپ کے والد کو کسی بات پر طعنہ دیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی حلم سے جواب دیا کہ ’’عہد اسلام میں زمانۂ جاہلیت کے تذکرہ کا کیا موقع ہے‘‘۔
آپ اپنے عہد خلافت میں عموماً دن کا وقت کارِ خلافت میں اور رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارتے۔ کبھی کبھی ایک رات میں پورا قرآن کریم ختم کردیتے۔ دوسرے اور تیسرے روز عموماً روزہ رکھتے اور کبھی مہینوں روزے سے رہتے اور رات کو صرف اتنا کھاتے کہ جس سے رمقِ حیات برقرار رہتی۔

حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی۔ ایک بار وضو کرکے مسکرانے لگے۔ لوگوں نے بے موقع تبسم کا سبب دریافت کیا تو فرمایا: ’’میں نے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرنے کے بعد مسکراتے دیکھا تھا‘‘ (مسند احمد،ج۱،صفحہ۵۸) ایک دفعہ سامنے سے جنازہ گزرا تو فوراً کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتے تھے‘‘۔ (مسند احمد،ج۱،صفحہ۶۸)
آپ نے اپنے دَور میں جو سب سے اہم کارنامہ انجام دیا، وہ قرآن کریم کو لغت قریش کے مطابق رائج کرنا ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو سات لغات پر قرآن پڑھنے کی اجازت تھی۔ معنی کے لحاظ سے اگرچہ ان لغات میں کوئی فرق نہ تھا، لیکن ساتوں لغات میں بعض الفاظ ایسے تھے، جو دوسری لغات سے ملتے نہ تھے، اس وجہ سے ناواقف لوگ ایک شخص کی قراء ت کو دوسرے شخص کی قراء ت کے خلاف سمجھ کر اس کی تکذیب کرتے۔ اس طرح ہر جگہ قرآن کریم کے قرآن ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک ناخوشگوار بحث کھڑی ہو جاتی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فتنہ کو ختم کردیا اور آج ہمارے ہاتھوں میں جو قرآن کریم کا نسخہ ہے، یہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ (اقتباس)