حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مولانا غلام رسول سعیدی

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام عموماً اور خلفائے راشدین خصوصاً انسانی عظمتوں کے وہ مینارۂ نور ہیں، جن سے قیامت تک کی آنے والی نسلیں رشد و ہدایت حاصل کرتی رہیں گی۔ یوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ ہی آسمان ہدایت کے ستارے ہیں، لیکن اللہ تعالی نے جن خصوصیات سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کو ممتاز کیا، وہ ان ہی کا حصہ ہیں۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ حیاء دار ایسے تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیاء کرتے تھے۔ فیاض اور جواد ایسے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی فیاضی سے خوش ہوکر ان کو امن اور جنت کی نوید سناتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر ایسے کہ آپﷺ نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے حبالہ عقد سے مربوط کیں اور جب دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہا کا وصال ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میری تیسری بیٹی بھی ہوتی تو وہ بھی عثمان کے نکاح میں دے دیتا‘‘ (اسد الغابہ، ج۳،صفحہ ۳۷۶) خوش نصیب ایسے کہ زبان رسالت سے زندگی میں شہادت اور وصال کے بعد جنت کی بشارت سنی۔ ایثا کیش ایسے کہ تشنہ لب جان دے دی، مگر اپنی زندگی میں مسلمانوں کی تلواروں کو باہم ٹکرانے نہیں دیا۔
آپ کا نام عثمان، ابو عبد اللہ اور ابو عمرو کنیت اور ذوالنورین لقب تھا۔ والد کا نام عفان بن ابی العاص اور والدہ کا نام اروی بنت کریز تھا۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کی نانی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں، اس اعتبار سے آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے۔ (الاصابہ، ج۲، صفحہ۴۶۲)
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا خاندان ایام جاہلیت میں غیر معمولی اہمیت اور اقتدار کا حامل تھا۔ آپ کے جد اعلی امیہ بن عبد شمس رؤسائے قریش میں سے تھے۔ خلفائے بنی امیہ، امیہ بن عبد شمس کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے امویین کہلائے۔ ابوسفیان بن حرب، جنھوں نے قبول اسلام سے پہلے تمام غزوات میں رئیس قریش کی حیثیت سے لشکر قریش کی قیادت کی، اموی تھے۔ غرض یہ کہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا خاندان شرافت، ریاست اور غزوات کے اعتبار سے عرب میں نہایت ممتاز تھا اور بنو ہاشم کے بعد کوئی اور خاندان شرف و سیادت میں آپ کے خاندان کا ہم پایہ نہ تھا۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ولادت نبوی کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ اہل عرب کے عام معمول کے برعکس انھوں نے بچپن میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا اور عہد شباب میں کاروبار تجارت شروع کردیا اور اپنی فطری صداقت، دیانت اور نیک روشن کے باعث غیر معمولی شہرت حاصل کی۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کا قد متوسط تھا، سرخ و سفید چہرہ، گھنگھریالے بال، گھنی ڈاڑھی، ملائم جسم اور انتہائی پروقار شخصیت کے حامل تھے۔ (الاصابہ، ج۲، صفحہ ۴۶۲)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد ابھی صرف تین شخص ہی اسلام لائے تھے کہ ایک دن حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی خالہ سعدی بنت کریز کے گھر گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کا تذکرہ چھڑ گیا۔ آپ کی خالہ نے کہا: ’’محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، ان کے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں، ان کا پیغام سپیدۂ سحر کی طرح روشن ہے، ان کے دین میں خیر ہے، ان کا حکم ماننے میں کامیابی ہے اور ان کے خلاف محاذ آرائی کرنا دنیا و آخرت کی ذلت ہے‘‘۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں یہ باتیں سن کر جب اپنی خالہ کے گھر سے نکلا تو میرے دل میں اسلام کی محبت اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ (الاصابہ، ج۴، صفحہ۳۲۸)