حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حبیب عبد الرحمن الحامد

حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت اعلانِ نبوت کے دوسرے سال ہوئی۔ جب والد گرامی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت کی تو اس وقت آپ کی عمر گیارہ سال تھی۔ ام المؤمنین حضرت سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی حقیقی بہن تھیں۔ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں کم عمری کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں کو جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ غزوۂ خندق کے موقع پر آپ جوان ہوچکے تھے، جس کی وجہ سے آپ کو شرکت کی اجازت ملی اور آپ نے بڑی مستعدی کے ساتھ اس غزوہ میں حصہ لیا۔ سنہ ۶ھ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کا قصد فرمایا اور حدیبیہ کے مقام پر صلح نامہ لکھا گیا، پھر دوسرے سال تین دن کے لئے جب خانۂ کعبہ آپﷺ کے حوالے کیا گیا تو اس موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے۔ بیعتِ رضوان کے موقع پر آپ نے اپنے والد سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے بیعت کی اور اپنے والد کو اس بات کی اطلاع دی۔ غزوۂ خیبر اور فتح مکہ میں آپ شریک رہے۔ فتح مکہ کے لئے جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ عبد اللہ بن عمر اپنے گھوڑا کے لئے گھاس کاٹ رہے ہیں تو فرمایا: ’’عبد اللہ ہے عبد اللہ‘‘ یعنی اس طرح آپﷺ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔

فتح مکہ کے موقع پر جب عثمان بن طلحہ سے خانۂ کعبہ کی کنجی طلب کی گئی اور دروازہ کھولا گیا تو سب سے پہلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کا شرف حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل ہوا۔ سنہ ۱۰ھ میں جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا (جس کو حجۃ الوداع کہا جاتا ہے) تو آپ بھی شریک رہے اور جب سنہ ۱۱ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دار فانی سے کوچ فرمایا تو آپ غم و الم کی تصویر بن گئے، اس کے بعد آپ نے نہ تو کوئی مکان بنایا اور نہ ہی کوئی باغ لگوایا۔ جب بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آتی یا آپﷺ کا نامِ مبارک آتا تو آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل پڑتے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا یہ فیض ملا کہ آپ نے ۱۶۳۰ احادیث روایت کیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے آپ تڑپ اُٹھتے۔ عہد فاروقی میں آپ نے ایک مجاہد کی طرح جہاد میں حصہ لیا، ایران و شام اور مصر کی فتوحات میں شریک رہے۔

سنہ ۲۳ھ میں جب خلیفۂ دوم امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابولولو فیروز کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور صحت کی کوئی امید نہ رہی تو آپ نے قبیلہ بنوعدی (امیر المؤمنین کا اپنا قبیلہ) کے لوگوں کو خلافت کے لئے منتخب نہ کرنے کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’بنوعدی کا حق میں نے ادا کردیا‘‘۔ بیٹے نے باپ سے سوال کیا: ’’اگر بکریوں کا چرواہا جنگل میں بکریاں چھوڑکر مالک کے پاس آجائے تو کیا اس کا مالک اس سے خوش ہوگا؟‘‘۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسرت بھری نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھ کر فرمایا: ’’بکریوں کا مالک تو بکریوں کی حفاطت پسند کرے گا‘‘۔ پھر امیر المؤمنین نے اپنے صاحبزادے سے کہا: ’’تم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاؤ اور کہو کہ جس جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آرام فرما ہیں، وہاں جو جگہ خالی ہے عمر وہیں دفن ہونا چاہتا ہے؟‘‘۔ ام المؤمنین نے بخوشی اجازت دے دی، پھر بھی آپ نے وصیت کی کہ جب مجھے کفن پہنا دیا جائے تو میرے جنازہ کو ام المؤمنین کے پاس لے جانا اور ایک بار پھر اجازت طلب کرنا۔ اگر وہ اجازت دے دیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے عام قبرستان بقیع میں دفن کردینا۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس بات کو غلط سمجھتے، اس کو بَرملا کہہ دیتے۔ عبادات سے آپ کو بہت زیادہ شغف تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی آپ کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جن جن مقامات پر آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت کرتے یا آرام فرماتے دیکھا، ان مقامات پر عبادت کرنا اور آرام کرنا آپ کا معمول تھا، یعنی پوری زندگی اتباعِ رسول میں بسر کرنا، مقصد زندگی بنالیا تھا۔

حجاج بن یوسف کی غلطیوں پر آپ اس کو ٹوکتے تھے، اس لئے وہ آپ کا دشمن بن گیا۔ اس نے ایک شامی کو زہرآلود نیزے سے آپ کے پیر کو زخمی کرنے کی ہدایت دی، اس طرح آپ خانۂ کعبہ میں زخمی ہوئے اور جان جاں آفریں کے حوالے کردیا۔ وفات سے پہلے آپ نے اپنے صاحبزادے سالم کو وصیت فرمائی کہ مرنے کے بعد مجھے حدودِ حرم کے باہر دفن کرنا، لیکن حجاج نے مداخلت کرتے ہوئے آپ کو حدودِ حرم کے اندر دفن کیا۔