حضرت صدیق اکبر؄ کی سبقت

مولانا غلام رسول سعیدی

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔ سفر ہو یا حضر، جنگ ہو یا امن، آپ ہمیشہ
مجلسِ رسولﷺ میں حاضر رہے اور جو شخص سفرِ حیات میں کسی کے ہم رکاب ہوتا ہے، اس کی روح بھی عالمِ ارواح میں اسی کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب تمام زندگی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے تو ماننا پڑے گا کہ عالمِ ارواح میں آپ کی روح بھی حضورﷺ کی روح کے ساتھ تھی۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ ’’میں اور ابوبکر ایک ساتھ قبر سے اُٹھیں گے اور ایک ساتھ جنت میں جائیں گے‘‘۔ حاصل یہ ہے کہ عالم ارواح ہو یا دنیا، قبر ہو یا حشر، حوضِ کوثر ہو یا جنت، حضرت ابوبکر صدیق ہر جگہ حضورﷺ کے ساتھ ہیں۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی عدیم المثال رفاقت ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کا پاس رکھتا ہے۔ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جگہ جگہ حضرت ابوبکر کا ذکر حضورﷺ کے ساتھ کیا ہے۔ مثلاً فرمایا: ’’والَّذی جائَ بالصدْق وصدَّق بہٖ‘‘۔ ’’جاء بالصدْق‘‘ سے حضورﷺ اور ’’صدَّق بہٖ‘‘ سے حضرت ابوبکر مراد ہیں۔ اسی طرح ’’محمدٌ رَّسول اللّٰہ‘‘ فرماکر حضورﷺ کا ذکر اور ’’والذین معہٗ‘‘ فرماکر حضرت ابوبکر کا ذکر کیا۔ نیز ’’اِذیقول‘‘ میں حضورﷺ کا ذکر ہے اور ’’لِصاحبہٖ‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی مصلحت کی خاطر حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر چند دن کے لئے وحی موقوف کردی تو کفار کہنے لگے کہ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ان کے رب نے چھوڑدیا اور ناراض ہو گیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس طعنہ کو دُور کرنے کیلئے سورۂ والضحیٰ نازل کی اور فرمایا: ’’قسم ہے چاشت کی اور رات کی جب وہ چھا جائے، آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا نہ آپ پر ناراض ہوا‘‘۔ سورۂ والضحیٰ میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی اور اس سے متصل سورۂ ’’واللیل‘‘ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت بیان فرمائی ہے۔ جب حضرت ابوبکر نے غیر معمولی قیمت سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خرید کر آزاد کردیا اور کفار نے حضرت ابوبکر کی اس عظیم نیکی میں تنقیص کا پہلو نکالتے ہوئے کہا: ’’ضرور بلال نے پہلے ابوبکر پر کوئی احسان کیا ہوگا، جس کا بدلہ اُتارنے کیلئے ابوبکر نے ان کو اتنی بڑی قیمت پر خریدکر آزاد کیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس طعن کو دُور کرنے کیلئے فرمایا: ’’ومالاحد عندہٗ من نعمۃٍ تجزیٰ o اِلّاابتغآء وجہ ربہ الاعلٰی o ولسوف یرضٰی o‘‘ یعنی تم بلال کی بات کرتے ہو، اس روئے زمین میں ابوبکر پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے۔ ابوبکر کی یہ نیکی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کیلئے تھی اور عنقریب وہ اس سے راضی ہو جائے گا۔

ان دونوں سورتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو حضورﷺ کے بارے میں کوئی اعتراض سن سکتا ہے اور نہ حضرت ابوبکر کے بارے میں۔ سورۂ والضحیٰ میں اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ سے اعتراض اُٹھایا اور سورۂ واللیل میں حضرت ابوبکر سے کفار کا طعن دُور کیا۔ وہاں حضورﷺ کی عزت افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ’’ولسوف یعطیک ربک فترضٰی‘‘ اور یہاں حضرت ابوبکر کی شان بڑھاتے ہوئے فرمایا: ’’ولسوف یرضٰی‘‘۔ سورۂ واللیل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منقبت پر ختم ہوئی ہے اور اس سے متصل بعد حضورﷺ کی نعت سے سورۂ والضحیٰ شروع ہوتی ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہوسکتا ہے کہ جس طرح ان کی فضیلتوں کے بیان میں کوئی فاصل نہیں ہے، اسی طرح ان کی ذوات کے درمیان بھی کوئی حائل نہیں ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقرب شخص وہ ہے، جو نیکی میں پہل کرنے والا ہو‘‘ (سورۃ الواقعہ) اور امتِ محمدیہ میں جتنے لوگ خیرات و حسنات کو حاصل کرنے والے ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سب میں پہلے ہیں، یعنی ایمان سب سے پہلے لائے، تبلیغ سب سے پہلے کی، دین کی نصرت میں سب پر سبقت کی۔ علاوہ ازیں حضورﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد از وصال مسلمانوں کی امامت اور قیادت کرنے والوں میں سب پر مقدم ہیں، یعنی امت میں ہر جگہ سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ (اقتباس)