حضرت سید محمد افتخار علی شاہ وطنؔ ؒ

ڈاکٹر عقیل ہاشمی

سرزمین دکن اپنی مردم خیزی کی وجہ سے ایک غیرمعمولی اعزاز کی حامل ہے اس کے آغوش میں اگر ایک طرف شاہانِ باتمکین اپنی تمام تر سطوت و جلالت سے حکمراں ، رہے تو دوسری سمت علم و حکمت صوفیائے کرام رشد و ہدایت کے لاتعداد  گہر آبدار، دانش و بینش کے ہزارہا چراغوں کو روشن و تابناک کرتے رہے ہیں ، انہی صاحبانِ رشد و ہدایت عہد آفریں شخصیتوں میں عارف باﷲ حضرت سید محمد افتخار علی شاہ المتخلص بہ وطنؔ رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک تھے جو اپنے تبحر علمی ، عبادت ریاضت ذکر و اشغال تالیف قلوب کے یگانۂ روزگار صاحبِ طرز ادیب و بے مثال شاعر نیز تصوف کے صاحب حال بزرگ تھے ۔ آپ کے ساتویں جد بزرگوار حضرت سید محمد عرب المدنیؒ مدینہ منورہ سے بعہد عبداﷲ قطب شاہ والی گولکنڈہ دکن تشریف لائے ۔ حضرت وطنؒ ۹؍ رمضان المبارک ۱۲۴۹ ھ بروز دوشنبہ بوقت افطار قلعہ محمد نگر (گولکنڈہ) میں پیدا ہوئے ، والد بزرگوار کا اسم گرامی حضرت میر کاظم علی حسینی المدنی تھا، آپ کا سلسلۂ نسب (۳۰) پشتوں میں حضرت امام زین العابدین علی بن حسین علیہ السلام سے جاملتا ہے ۔ حضرت وطنؔ صرف سات برس کے تھے کہ والد ماجد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور تعلیم و تربیت آپ کی والدہ حضرت پیاری بیگمؒ بنت میر مخدوم علی المخاطب بہ مخدوم بیگ خاں بہادر کے زیرنگرانی ہوئی ۔ حضرت وطنؒ کو سیر و سیاحت کا بھی بڑا شوقت تھا تقریباً چالیس بیالیس برسوں تک مجاہدات ، عبادات راہِ سلوک کی مختلف منازل طے کرنے میں مصروف رہے، اسی دوران پاپیادہ حج   بیت اﷲ و زیارت روضۃ النبی ﷺ سے سرفراز ہوئے ، ہندوستان کی واپسی پر خواجہ اعظم ہندالولی حضرت معین الدین چشتی غریب النوازؒ کی بارگاہ میں کوئی تین سال چلہ کشی کی اور آپؒ ہی کی ایماء پر دکن تشریف لائے اور حضرت اکبر علی شاہؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت کی ۔ اس کے علاوہ حضرت وطنؒ کو خاندان صابریہ میں حضرت محبوب علی شاہؒ الہ آبادی سے بھی اجازت و خلافت تھی ۔ آپ ایک صاحب کشف و کرامات عابدشب زندہ دار ذاکر شاغل بچپن ہی سے خرق عادات ، صوفی منش ادیب و شاعر تھے۔ حضرت وطنؔ کی وفات ۹ رمضان المبارک ۱۳۲۴ھ کو گھانسی بازار میں ہوئی اور تدفین چشتی چمن رازدارخاں پیٹھ (منگل ہاٹ ، حیدرآباد) میں ہوئی جہاں آپ کا آستانہ مرجعٔ خلائق ہے ۔