حضرت سید شاہ راجو محمد محمد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ

حضرت سید شاہ یوسف محمد محمد الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۰۰۲ھ میں بیجاپور میں ہوئی۔ آپ کا لقب ’’راجو‘‘ تھا۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی حضرت سید شاہ سفر اللہ حسینی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ ہوئی۔ بہ عہد عبد اللہ قطب شاہ اپنے عم محترم حضرت سید شاہ اکبر حسینی قبلہ کے ہمراہ حیدرآباد تشریف لائے اور انھوں نے ہی آپ کو بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔ بعد وصال عم محترم، آپ مسند سجادگی پر فائز ہوئے اور رشد و ہدایت فرمانے لگے۔ جب حضرت کی تعلیمات اور خانقاہ کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی تو لوگ جوق در جوق ہزاروں کی تعداد میں جمع و مستفید ہونے لگے۔

حضرت شاہ راجو علوم دینی و دنیوی پر کامل دسترس رکھتے تھے، چنانچہ خانقاہ میں پابندی سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا، جس سے ہزارہا بندگانِ خدا مستفید ہوکر صبر و توکل، قناعت و ریاضت اور اصلاح باطن پر گامزن ہوتے۔ آپ عربی، فارسی اور دکنی زبان کے بلند پایہ ادیب اور مصنف تھے۔ حضرت کے ارشادات، ملفوظات، خطبات و مواغط، نصائح اور عارفانہ کلام جو دکنی اور فارسی میں ہے، حضرت کے مریدین و معتقدین نے بڑی عقیدت کے ساتھ جمع کیا ہے۔ حضرت کی تعلیمات کی اشاعت کے لئے ’’شاہ راجو اکیڈمی‘‘کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے، جس کے ذریعہ حضرت کے غیر مطبوعہ مخطوطات کی اشاعت عمل میں لائی جا رہی ہے، چنانچہ اب تک پانچ کتابوں کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔
حضرت شاہ راجو اپنے رسالہ ’’رسالہ کیمیائے ذات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’دل کو چراغ معرفت سے روشن کرو، معقول اور منقول کے جھگڑوں سے گزرکر اس کے ذکر اور فکر میں سدا مشغول رہو۔ تمہاری آنکھ، کان اور زبان کا اس کے سوا کوئی پیشہ نہیں کہ کل روز محشر سب گواہی دیں گے۔ اگر تم مرد ہو تو ان دشمنوں سے بچو۔ اگر تمھیں کل آتش دوزخ کی تاب نہیں ہے تو آج ہی حساب (محاسبۂ اعمال) کرلو‘‘۔

’’طریق المؤمنین‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ہر جگہ حق کو حاضر و ناصر جانو، کیونکہ نور حق ہر جگہ جلوہ گر ہے۔ کوئی چیز نہیں ہے جو اس کے نور سے نہ ہو، جو کچھ ہے اس کا نور ہے۔ اس کا نور آفتاب سے زیادہ روشن ہے، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، جو اس کو دیکھے اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا۔ جب تک کہ اپنی دید کو ترک نہ کرے، اس کو نہیں دیکھ سکتا‘‘۔ آپ نے ۱۵؍ صفر المظفر ۱۰۹۲ھ کو اس جہانِ فانی سے پردہ فرمایا۔ آپ کا عرس شریف ۱۳،۱۴،۱۵ اور ۱۶؍ صفر کو منایا جاتا ہے۔