حضرت سیدنا علی مرتضیٰ ثکی حاضر جوابی

محمد زعیم الدین حسامی
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دَور خلافت میں ایک دن حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور پوچھا: ’’اے حذیفہ! آج تم نے کس طرح صبح کی؟‘‘۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’امیر المؤمنین! فتنہ سے محبت کرتا ہوں، حق کو ناپسند کرتا ہوں، جو شے پیدا نہیں ہوئی اُس کا قائل ہوں، جو نہیں دیکھا اُس کی گواہی دیتا ہوں، بغیر وضوء کے صلوۃ ادا کرتا ہوں اور زمین میں میرے پاس ایسی چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کے پاس نہیں ہے‘‘۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حذیفہ کی یہ باتیں سن کر بہت غصہ ہوئے اور ارادہ فرمایا کہ حضرت حذیفہ کو ان باتوں کے کہنے پر سزا دیں، لیکن صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا لحاظ کرکے رُک گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان باتوں کی وجہ سے بہت فکرمند تھے کہ اتنے میں حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ تشریف لائے۔ آپ نے دیکھا کہ امیر المؤمنین کے چہرۂ مبارک پر غصہ کے آثار نمودار ہیں تو دریافت فرمایا کہ ’’امیر المؤمنین! آپ کو کس بات نے فکر مند کیا؟‘‘۔ جس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سارا قصہ بیان کردیا۔
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سارا واقعہ سنا تو فرمایا ’’امیر المؤمنین! آپ غصہ ختم کردیں، کیونکہ حضرت حذیفہ جس فتنہ کو پسند کرتے ہیں، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ’’بلاشبہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد فتنہ (آزمائش) ہیں‘‘۔ اُن کا یہ کہنا کہ وہ حق کو ناپسند کرتے ہیں، حق سے مراد موت ہے (جسے وہ ناپسند کرتے ہیں)۔ ان کا یہ کہنا کہ جو شے پیدا نہیں ہوئی، اُس کا قائل ہوں۔ اس سے مراد قرآن مجید ہے، جو پیدا شدہ نہیں، بلکہ اللہ تعالی کا صفتی کلام ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ جو نہیں دیکھا اُس کی گواہی دیتا ہوں، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی تصدیق ہے، جسے انھوں نے نہیں دیکھا۔ ان کا یہ کہنا کہ بغیر وضوء کے صلوۃ ادا کرتا ہوں، تو یہ بغیر وضوء کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ (درود) پڑھتے ہیں (اور درود شریف کا بغیر وضوء کے پڑھنا گناہ نہیں ہے)۔ حضرت حذیفہ کا یہ کہنا کہ زمین میں میرے پاس ایسی چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ کے پاس نہیں ہے۔ اس سے مراد اولاد اور بیوی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے‘‘۔
یہ وضاحت سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے فرمایا ’’اے ابوالحسن! (یہ حضرت علی کی کنیت ہے) تم نے میری بہت بڑی فکر دُور کردی‘‘۔
(بحر الدموع، مصنف علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ)