اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی عقل اور خوبیا ں عطا فرمائی تھیں جو آپ کے اس امتیاز کا باعث ہوئیں ۔ دوسرے یہ کہ آپ تصفیہ مقدمات میں نہایت غور و خوض سے کام لیتے ۔ پوری مثل خود معائنہ فرماتے ۔ جو نتیجہ اخذ کرتے اسی پر فیصلہ فرماتے تھے۔اس معاملہ میں کبھی آپ نے کسی کی سفارش قبول نہیں فرمائی۔ ایک مرتبہ آپ کے ایک دیرینہ مخلص دوست نے جو آپ کی ہر معاملہ میں اعانت کیا کرتے تھے کسی معاملہ میں سفارش کی جس پر آپ بہت برا فروختہ ہوئے اور فرمائے میں سفارش قبول کرنے والوں سے اُن لوگوں کو اچھا سمجھتا ہوں جو رشوت لے کر کام کردیتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ خدا و رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کے حکم کے خلاف کرتے ہیں مگر انہیں دنیا کا نفع مل جاتا ہے ۔ لیکن سفارش سننا گویا انصاف کا خون کرنا ہے اور اس میں سوائے خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْآٰخِرَۃ کے کوئی نفع نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے فیصلوں کو مسلمان اور ہندو خوشی سے منظور کر لیتے تھے چنانچہ مسجد مٹھواڑہ( ورنگل)کی تعمیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں نزاع پیدا ہو گئی تھی جس کا آپ نے اس خوبی سے تصفیہ فرمایا کہ دونوںفریق راضی ہو گئے اسی طرح مسجد مخدوم پورہ ( گلبرگہ شریف )کی نسبت اہلِ حدیث و اہل سنت و جماعت میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا تھا آپ نے باحسن الوجوہ تصفیہ فرمایا جس سے دونوں جماعتیں راضی ہوئیں۔
ایک صاحب نے آپ سے کہا کہ بعض وکلاء اپنی جادو بیانی سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھا سکتے ہیں اور کسی مقدمہ میں حقدار کا وکیل کمزور اور فریق مخالف کا تیز ہو تو وہ آسانی سے آپ کو غلط باور کرانے میںکامیاب ہو جائے گا ’’جواب میں فرمایا ’’میں حتیٰ المقدور انصاف کرنے کی کوشش کرتاہوں غیب کاحال اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے۔ اس کے سوا جب میں اجلاس پر بیٹھتا ہوں یا فیصلہ لکھنا شروع کرتا ہوں تو پہلے حضرت سرور دوعالم صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم کی روح پاک کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرتا ہوںکہ میں ایک ذرئہ بے مقدار ہوں میرا معاملہ آپ کے حوالے ہے جب تک آپ مدد نہ فرمائیں راہ ِ راست نہیں مل سکتی ‘‘اسکے بعد فیصلہ لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں۔ آپ جب کبھی اجلاس پرتشریف لے جاتے تو پہلے اللّٰہم ان قلوبنا و نواصینا و جوارحنا بیدک لم تملکنا منھا شیئا فاذا فعلت ذالک بنا فکن انت ولینا واھدنا الی سواء السبیل پڑھتے اورپھر کام شروع کرتے تھے۔
حسن خلق: سرکاری اور خانگی ملازمین سب کے ساتھ آپ کا برتاؤ نہایت شریفانہ رہتا تھا نہ کبھی کسی کو ایسی بات کہتے نہ کسی سے ایسا سلوک کرتے جس سے وہ ناخوش ہو آپ کے اس حسن سلوک کے وجہ سے خانگی ملازمین کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ جو ایک دفعہ ملازم ہوجاتا وہ پھر تا دمِ آخر آپ کی خدمت سے دور نہ ہوتا تھا۔
پابندیٔ شریعت: آپ کی زندگی ملت بیضاء کے بالکل مطابق تھی ، کھانے پینے،سونے بیٹھنے،چلنے،پھرنے غرض ہر بات میں اس کا خیال رکھتے کہ کوئی بات شریعت کے خلاف نہ ہونے پائے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی خلاف شرع ظاہر نہ ہوتیں۔ مفتی محمد رکن الدین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں حضرت بانی جامعہ نظامیہ کی پابندی ٔنماز کا یہ عالم تھا کہ راقم۲۸ سال آپ کی خدمت میں رہا کبھی کوئی نماز قضاء ہوتے نہیں دیکھا مرض الموت میں جب آپ کو اٹھنا بیٹھنا مشکل ہو گیا تھا تیمم کر کے لیٹے لیٹے ہی نماز ادا فرماتے۔ حتیٰ کہ َدورۂ غش میں جو نمازیں قضاء ہوجاتیں وہ بھی ادا فرماتے ۔سرطان پیٹھ میں تھا جس کی تکلیف سے چت لیٹنا نہایت تکلیف دہ تھا مگر آپ نماز کی خاطر یہ تکلیف بھی برداشت فرماتے وصال سے دو تین گھنٹہ پہلے جبکہ آپ کو اس قدر تنفس تھا کہ دور تک آواز سنائی دیتی تھی اور اس کی شدّت سے زبان کو حرکت دینا متعذر تھاتو راقم نے دیکھا کہ صرف آنکھوں کے اشارہ سے نماز ادا فرما رہے ہیں اُس وقت محسوس ہوا کہ یہ آخری نماز ہے دریافت سے معلوم ہوا کہ آپ دیر سے اسی میں مشغول ہیں آپ ہمیشہ فرض نماز باجماعت (جیسا کہ لباس کے بیان میں گزرا ) پورا لباس پہن کر اس قدر خشوع و خضوع سے ادا فرماتے تھے کہ دیکھنے والا متاثر ہو جاتا۔علاوہ فرائض کے صرف تہجد اور صلوٰ ۃ الاوابین کے پابند تھے کیونکہ آپ کا زیادہ وقت تالیف وتصنیف میں گزرتا تھا۔
{مطلع الانوار} مرسل : سید زبیر ہاشمی قادری
zubairhashmi7@gmail.com