تاریخ کے جھروکوں سے … مولانا حبیب عبدالرحمن بن حامد الحامد
حضرت بی بی زرقاء رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ ہمدان سے تھا ۔ عدی بن قیس کی بیٹی تھیں اور اپنے قبیلے کی فصیح البیان شاعرات میں شمار ہوتی تھیں ۔ جنگ صفین میں حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی طرف سے شریک تھیں۔ رجزیہ اشعار پڑھ پڑھ کر اپنے قبیلے کے لوگوں کو لڑائی کیلئے اُبھارتی تھیں۔ کہا جاتا ہے ان کے پُرجوش اشعار سن کر قبیلے کے لوگ آخر دم تک لڑتے رہے ۔ لڑائی کے بعد وہ کوفہ چلی گئیں اور اپنے گھر میں خاموشی سے زندگی کے دن گذارنے لگیں۔
ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ کے دربار میں حضرت بی بی زرقاءؓ کا ذکر چل پڑا ۔ اہل دربار میں بعض نے کہا (بی بی )زرقاؓ کے اشعار نے بڑا غضب ڈھایا ، کئی مرتبہ لڑائی کا رُخ بدل دیا ۔
امیر معاویہؓ نے پوچھا ، بتاؤ اس عورت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟
مصاحبوں نے کہا : اے امیر یہ عورت واجب القتل ہے ۔
امیرمعاویہؓ نے فرمایا : یہ تو بہت بُرا مشورہ ہے ۔ کیاتم چاہتے ہو کہ لوگ میرے بعد یہ کہیں کہ معاویہ نے ایک عورت پر قابو پاکر اس کو قتل کردیا ۔ میں ایسا ہرگز نہ کروں گا ۔
پھر انھوں نے عامل کوفہ کو خط لکھا کہ (بی بی ) زرقاء ؓ کو عزت و احترام کے ساتھ دمشق بھیج دو ۔
عامل کوفہ نے بی بی زرقاء ؓ کو طلب کیا اور انھیں امیر کے فرمان سے واقف کروایا ۔
بی بی زرقاءؓ نے کہا اگر امیر نے میرا جانا میری مرضی پر رکھا ہے تو میں وہاں نہ جانا بہتر سمجھتی ہوں اگر یہ امیر کا حتمی حکم ہے تو بہرحال جانا پڑے گا ۔
عامل کوفہ نے کہا ۔ یہ حکم قطعی ہے ۔ چنانچہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ دمشق روانہ کردیا ۔ جب امیر معاویہؓ کی خدمت میں پہنچی تو ، آپ نے پہلے خیریت پوچھی ، پھر پوچھا سفر کیسے طئے ہوا ؟
بی بی زرقاءؓ نے کہا : جس طرح لڑکی ماں کی گود میں پرورش پاتی ہے یا بچہ گہوار ے میں سوتا ہے ۔
امیرمعاویہؓ نے فرمایا : ہم نے عامل کوفہ کو اسی طرح کی ہدایت دی تھی ۔
تم کو معلوم ہے میں نے تمہیں کس لئے بلایا ہے ؟
بی بی زرقاءؓ نے کہا جس کا مجھے علم نہیں میں کیسے جان سکتی ہوں ؟
امیرمعاویہؓ نے کہا اے (بی بی ) زرقاءؓ کیا تو وہی نہیں جو صفین کی لڑائی میں سرخ اونٹ پر سوار ہوکر لوگوں کو لڑائی کیلئے مشتعل کررہی تھیں۔ تو نے ایسا کیوں کیا ؟
بی بی زرقاءؓ نے کہا : اے مسلمانوں کے امیر جو کچھ ہونا تھا سو ہوا ۔ آپ ماضی کو بھول جائیے ، دنیا میں یہی ہوتا رہا ہے ، ایک حالت کے بعد دوسری حالت ہوتی ہے ۔
امیرمعاویہؓ : کیا تم کو اُس دن ـکا خطبہ یاد ہے ؟
بی بی زرقاء: بخدا مجھے یاد نہیں ، میں سب کچھ بھول چکی ہوں ۔
امیر معاویہ: لیکن میں تو نہیں بھولا ۔ سنو ! تم علیؓ کی فوج اور اپنے قبیلے کے نوجوان سے کہہ رہی تھی ، ’’تم فتنے سے بچو ، جو ظلمت کی طرف ڈھکیل رہا ہے لوگوں کو راہ راست سے بھٹکارہا ہے ۔ یہ کیسا اندھا بہرا گونگا فتنہ ہے کہ ہانکے والوں کی ہانک کو سنتا ہے اور نہ کھینچنے والوں کی مرضی پر چلتا ہے ۔ دیکھو چراغ آفتاب کے سامنے روشن نہیں ہوتا ۔ اے مہاجرین! یاد رکھو ، عورتوں کی آرایش مہندی سے ہے اور مردوں کی خون سے ‘‘۔
اے امیر اﷲ آپ کا بھلا کرے آپ نے بھولے بسرے واقعات کو یاد دلاکر میرا خون گرمادیا ۔ میری مردہ روح کو پھر زندہ کردیا۔
امیر معاویہؓ : کیا تو حضرت علی کا ساتھ دینے پر اب بھی خوش ہے ؟
بی بی زرقاءؓ : صرف خوش ہی نہیں بلکہ مجھے فخر ہے ۔
امیر معاویہ : اے زرقاء ؓ ، علیؓ کے ساتھ تیری وفاداری اُن کی وفات کے بعد بھی قابل عزت ہے ۔ بہ نسبت اس عقیدت اور محبت کے جو ان کی زندگی میں تم اُن کے ساتھ رکھتی تھیں۔ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو بلاتکلف مجھ سے مانگ لو۔
بی بی زرقاءؓ : جس شخص کے خلاف میں لوگوں کو بھڑکاتی رہی ۔ آمادہ پیکار کرتی رہی ۔ اب ان کے سامنے دست سوال کیسے کروں؟ ہاں بغیر سوال کے کچھ مل جائے تو انکار نہ کروں گی ۔
حضرت امیر معاویہؓ بھی تحمل اور بردباری میں اپنی مثال آپ تھے۔ انھوں نے بی بی زرقاء ؓ اور اُن کے ساتھیوں کو انعام و اکرام اور قیمتی خلعت دے کر رخصت کیا۔ ان کے جانے کے بعد انھوں نے درباریوں کے سامنے بی بی زرقاءؓ کی جرأت مندی کی تعریف کی ۔