ڈاکٹر محمد ہاشم علی‘ گلبرگہ
حضرت سید محمد الحسینی گیسودراز بندہ نواز‘ شہباز‘ بند ہ نوازعلیہ الرحمہ کے مسلک عشق و محبت کے تعلق سے سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا قول ہے کہ عقل انسان کیلئے ایک بیش قدر چیز ہے، مگر عشق وہ شئے ہے جو بڑے بڑے قلعے اور پہاڑوں کی اونچی اونچی چوٹیاں آناً فاناً میں سر کردیتی ہے۔ عقل کہا کرتی ہے کہ خطرے میں مت پڑو، مگر عشق کہتا ہے کہ تم پرواہ بھی مت کرو۔
بندہ نوازعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عشق ایک سہ حرفی لفظ ہے جس میں کوئی حرف علت نہیں پس عشق جیسا ظاہر لفظ میں ہے۔ باطنی معنی میں ویسا ہی علت سے خالی ہے، جس طرح دیوانے کو اس کی دیوانی حرکتوں سے پہچانا جاتا ہے اور شاعر کو اس کے احوال سے شناخت کی جانی ہے۔ مجنوں سے کسی نے کہہ دیا کہ لیلیٰ مر گرئی تو بوجہ عشق اس کے دل پر ایک تیر تو لگا مگر وہ لیلیٰ کے دروازے پر آکر لیٹ گیا گویا کہ قیلولہ کر رہا ہے۔ اس کی لیلیٰ نہیں مری تھی اس کے فکر و تصور میں اس کے پاس موجود تھی، حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اسی طرح تم بھی فکر و اندیشے کو ہاتھ سے جانے نہ دو تمہیںبھی ایسا ہی نظارہ حاصل ہوگا‘ قیامت میں جب حشر کا میدان ہوگا تو عشاق مستانہ وار خوش خوش نظر آئیں گے، عقل کا اس وقت کہیں ٹھکانہ نہ ہوگا، جمالِ ازلی کا طالب اپنے محبوب کی طلب میں اِدھر اُدھر تلاش میں ہوگا کہ حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے تجلی فرمائے گا۔ اس مبتلا و گرفتار عشق پر جس خیال میں ہو گا اس کے مطابق حال کی تجلی ہوگی، حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے ایک طالب عشق کو اپنے کانوں سے یہ آہ وزاری کرتے سنا ہے کہ الٰہی اس ذات مقدس کو عزت و کبریائی کے پردوں میں رہنے دے۔ اپنے لطف و کرم سے مجھے ایک نظر دکھا دے پھر اس کے بعد مجھ کو دوزخ کے ساتوں طبقوں پر جھونک دینا کچھ پروا نہیں۔
حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی علیہ الرحمہ کو بار بار یہ کہتے سنا ہے کہ ماسوائے اللہ، دل کو پاک و صاف کرکے ایک فیروزی رنگ کا خرقہ پہن کر فقیروں کی صورت بناکر تیرے عشق و محبت کا راگ گاتا رہا ہوں اور اس دیوانے دل کے ہاتھ میں ایک جھولی دے دوں کہ ترے دروازے پر دھٹی دے کر عشق و محبت کی بھیگ مانگتا رہے۔ اپنے پیرو مرشد کی طرح حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ نے بھی عشق و محبت الٰہی پر غیر معمولی زور دیا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ تمام کاموں میں سب سے بڑا کام اور تمام مقصود میں سب سے اہم مقصد محب الٰہی ہے۔ محبت کے اسلوب کے اسباب و موجبات طرح طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک عقل مند آدمی یہ سونچتا ہے کہ جب یہ شئے فنا ہونے والی ہے تو عمر کو کس کام میں صرف کرنا چاہئے۔ سب سے بہتر اور سب سے عمدہ شئے عبادت الٰہی ہے مگر اسے بھی فنا ہے۔ آج ایک آدمی نماز پڑھتا ہے کل قیامت کے روز اسے اس کی نیکی کا پھل ملے گا، لیکن نماز کہاں ہوگی؟ جب نماز نہ ہوگی اور اس کا یہ حال ہوگا تو اس جہاں کے اور اشیاء یعنی مال و جاہ وقوت بخش و تمتع کا کیا ذکر۔ لیکن محبت الٰہی تو دوام ہے وہ رہے گی۔ وہ ازلی و ابدی ہے۔ جب محبوب خود ازلی و ابدی ہے تو اس کی دوستی بھی ایسی ہی ہوگی۔ پس جس کو قلب سلیم عطا ہوا ہے۔ وہ سب پس پشت ڈال کر صرف محبت الٰہی کی طرف رخ کرتا ہے اور پھر حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔ اے برادر میری بات مانو کہ محبت الٰہی سب کچھ ہے اور پوری پوری محبت اسی وقت ہوتی ہے جبکہ پہلے معرفت حاصل ہوچکی ہو،
جو کچھ تیرے پاس ہے کچھ نہ رہے گا اگر کچھ عقل ہے تو عمر ضائع مت کر، کچھ وقت یاد الٰہی میں بھی صرف کر، زن و فرزند، مال و اسباب و عیش و روزگار کی فکر کب تک اسی بات کو حضرت سیدنا بندہ نوازعلیہ الرحمہ ایک تمثیل کے ذریعہ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک شخص ایک حسین و جمیل عورت کی طرف گھور رہا تھا، عورت نے بیزار ہوکر پوچھا میرے پیچھے کیوں پڑ گئے اور کیوں گھور رہے ہو، اس نے کہا میں تیرا عاشق ہوں، عورت نے کہا دیکھو یہ پیچھے میری بہن ہے جو مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے، اس شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا، عورت نے سرپر ایک دھول رسید کی اور جھڑکی دی کہ اے مرد دعویٰ عشق کرتا ہے اور پھر یہ گمان کرتاہے کہ مجھ سے بھی کوئی خوب تر ہے۔ اس کے بعد حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ کا ارشاد ہوتا ہے کہ ذرا سوچو تو سہی کہ جس روز تمہیں قبر میں لٹایا جائے گا اس وقت سوائے اس ذات واحد کے جو احد و حمد سے اور بھی کوئی تمہارے ساتھ ہوگا؟ کوئی نہیں۔ پس اے جوان مرد کچھ اس ذات کے ساتھ بھی مشغول رہ جس کے سوائے اور کوئی شئے ترے ساتھ نہ ہوگی۔ اسی محبت الٰہی کے تعلق سے حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ قاضی علیم الدین شیخ زادہ کو لکھتے ہیں کہ ’’جاننا چاہئے کہ سب سے بڑا اور اہم مقصد محبت الٰہی ہے۔ عقلمند آدمی جس شئے میں قیام نہیں دیکھتا اور جس شئے میں طلوع و زوال ہے یعنی بقاء نہیں اس پر کبھی نگاہ نہیں ڈالتا، مجھے نہیں معلوم کہ میرے احباب کس کام میں لگے ہوئے ہیں اور کس فکر میں مبتلا ہیں۔ یاد رکھو جس شئے میں ثبات نہیں اس سے دل کو اٹکا نا مناسب نہیں، یہ دنیا ایک ایسی معشوقہ ہے جس میں کوئی مہر وفا نہیں اور نخرے کرنے کے سوائے اس کا کوئی اور کام نہیں۔ اس کا عاشق کبھی بامراد نہیں ہوتا، پھر بندہ نوازعلیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اے عزیز محبت الٰہی ایک گلزار ہے اگر ہوسکے تو اس میں سے کچھ پھول چن لو، ڈرتا ہوں کہ کہیں موت نہ آجائے اور اس گلزار کی خوشبو سے تمہارا دماغ خالی رہے۔ سو کیا رہے ہو اٹھو، بیدار ہو، کچھ کام کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی بیکار ہوجاؤں، جہاں تک ہوسکے اس جہاں فانی سے کچھ حاصل کرلو، جو عاقبت میں تو شہ کا کام دے اور قیامت میں راحم ربانی کا باعث ہو۔
حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ نے قاضی برہان الدین و سید حسین علیہ الرحمہ اور امیر سلطان علیہ الرحمہ کے نام جو خطوط لکھے ہیں ان میں محبت کی تین قسموں کا ذکر کیا ہے۔ (۱) محبت عامہ (۲) محبت خاصہ (۳) محبت اخص الخواص ۔ پھر محبت خاصہ کے تین حصے بتائے گئے ہیں۔ محبت اقوال، محبت صفات اور محبت ذات، تیسری قسم محبت اخص الخواص ہے جو ذات اقدس و مطہر کی محبت ہے۔ ابرار و احرار کی زبان سے اس کا بیان نہیں ہوسکتا۔ یہاں بیان کا دروازہ بند اور عقل کی زبان پر گرہ لگی ہوئی ہے۔
حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ نے حضرت غوت اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی الہامی تصنیف رسالہ غوثیہ کی ایک شرح لکھی ہے اور اس کو جواہر العثاق کے نہایت دلنشیں و معلی خیز نام سے موسوم فرمایا ہے۔ اس شرح کے ضمن میں حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ غوث اعظم علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ میں نے رب العزت کو دیکھا تو معراج کے متعلق ان سے پوچھا اس نے مجھ سے فرمایا کہ اے غوث معراج وہ ہے جس میں آنکھ نہ جھپکے، نہ غلط دیکھے، فرمایا غوث پاک علیہ الرحمہ نے کہ میں نے پروردگار کو دیکھا جو سمجھ کی پہنچ سے بالاتر ہے۔ پھر حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ ہر روز معاملات میں سید محمد الحسینی نے رب العالمین کو نہ جانا نہ پہچانا، تو دوسرے کون ہیں جن کو شمار کیا جائے لہٰذا اے دوست مشاہدہ کے لئے مجاہدہ کرنا چاہئے تاکہ مرشد کامل کے طفیل سے اس مقام پر پہنچ جائے ورنہ تو کہاں اور یہ بات کہاں، اس کے بعد حضرت بندہ نوازعلیہ الرحمہ لکھتے ہیں جب غوث اعظم علیہ الرحمہ نے باری تعالیٰ سے معراج کی بابت پوچھا اور دریافت کیا کہ معراج کیا ہے تو فرمایا کہ معراج سوائے میرے ہر چیز سے نکل پڑنا ہے میرے ساتھ معراج یہ ہے کہ تم میرے ہر جلالی و جمالی پر تو سے نکل کر میری طرف آجاؤ تو اس مقام پر پہنچ جاؤ گے، خدائے بزرگ و برتر اولیاء کو اپنی ذات کی طرف بلاتا ہے، جس کی صفت اسلام ہے۔ اسی لئے رب العالمین نے السلام علیک ایھاالنبی فرمایا یعنی اے نبی تم پر میرا سلام ہو۔