حضرت بانی جامعہ نظامیہ کے فیصلہ کو مسلم و غیر مسلم سب قبول کرتے

اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ الاسلام عارف باﷲ امام حافظ محمد انواراﷲ فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان کو ایسی عقل اور خوبیا ں عطا فرمائی تھیں جو آپ کے اس امتیاز کا باعث ہوئیں ۔ دوسرے یہ کہ آپ تصفیہ مقدمات میں نہایت غور و خوض سے کام لیتے ۔ پوری مثل خود معائنہ فرماتے ۔ جو نتیجہ اخذ کرتے اسی پر فیصلہ فرماتے تھے۔اس معاملہ میں کبھی آپ نے کسی کی سفارش قبول نہیں فرمائی۔ ایک مرتبہ آپ کے ایک دیرینہ مخلص دوست نے جو آپ کی ہر معاملہ میں اعانت کیا کرتے تھے کسی معاملہ میں سفارش کی جس پر آپ بہت برا فروختہ ہوئے اور فرمائے میں سفارش قبول کرنے والوں سے اُن لوگوں کو اچھا سمجھتا ہوں جو رشوت لے کر کام کردیتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ خدا و رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلم کے حکم کے خلاف کرتے ہیں مگر انہیں دنیا کا نفع مل جاتا ہے ۔ لیکن سفارش سننا گویا انصاف کا خون کرنا ہے اور اس میں سوائے خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْآٰخِرَۃ کے کوئی نفع نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الرحمہ کے فیصلوں کو مسلمان اور ہندو خوشی سے منظور کر لیتے تھے چنانچہ مسجد مٹھواڑہ( ورنگل)کی تعمیر میں مسلمانوں اور ہندوؤں میں نزاع پیدا ہو گئی تھی جس کا آپ نے اس خوبی سے تصفیہ فرمایا کہ دونوںفریق راضی ہو گئے اسی طرح مسجد مخدوم پورہ ( گلبرگہ شریف )کی نسبت اہلِ حدیث و اہل سنت و جماعت میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا تھا آپ نے باحسن الوجوہ تصفیہ فرمایا جس سے دونوں جماعتیں راضی ہوئیں۔
ایک صاحب نے آپ علیہ الرحمہ سے کہا کہ بعض وکلاء اپنی جادو بیانی سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھا سکتے ہیں اور کسی مقدمہ میں حقدار کا وکیل کمزور اور فریق مخالف کا تیز ہو تو وہ آسانی سے آپ کو غلط باور کرانے میںکامیاب ہو جائے گا ’’جواب میں فرمایا ’’میں حتیٰ المقدور انصاف کرنے کی کوشش کرتاہوں غیب کاحال اللہ تعالیٰ ہی جانتاہے۔ اس کے سوا جب میں اجلاس پر بیٹھتا ہوں یا فیصلہ لکھنا شروع کرتا ہوں تو پہلے حضرت سرور دوعالم صلی اللہ علیہ و الہٖ وسلم کی روح پاک کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرتا ہوںکہ میں ایک ذرئہ بے مقدار ہوں میرا معاملہ آپ کے حوالے ہے جب تک آپ مدد نہ فرمائیں راہ ِ راست نہیں مل سکتی ‘‘اسکے بعد فیصلہ لکھنے کے لئے قلم اٹھاتا ہوں ۔
آپ علیہ الرحمہ جب کبھی اجلاس پرتشریف لے جاتے تو پہلے اللّٰہم ان قلوبنا و نواصینا و جوارحنا بیدک لم تملکنا منھا شیئا فاذا فعلت ذالک بنا فکن انت ولینا واھدنا الی سواء السبیل پڑھتے اورپھر کام شروع کرتے تھے۔

{مطلع الانوار مطبوعہ ۱۴۳۵ھ ۲۰۱۴ء}
مرسل : ابوزہیر