حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ

محمد قیام الدین انصاری

حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۳؍ شوال المکرم ۱۹۶ھ میں ہوئی۔ آپ ابھی کمسن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور تعلیم کے لئے صرف والدہ کا سہارا باقی رہا۔ آپ کے والد حضرت اسماعیل جلیل القدر عالم اور حضرت حماد بن زید کے شاگرد تھے۔ علاوہ ازیں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی کا بھی آپ کو فخر حاصل تھا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابھی آنکھیں بھی نہ کھولی تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ والدہ نے بارگاہ الہٰی میں آہ و زاری کی، عجز و نیاز کا دامن پھیلاکر اپنے بیٹے کے لئے دعائیں مانگیں، جو شرف قبولیت سے سرفراز ہوئیں۔ رات کو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں: ’’اے نیک بخت! تیری دعائیں قبول ہوئیں اور تیرے لخت جگر کو نورِ نظر سے نوازا گیا ہے‘‘۔ صبح اُٹھتی ہیں تو دیکھتی ہیں کہ بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو کمسنی ہی سے علم حدیث کا بے انتہا شوق تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اسی کام کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ جب بھی کوئی حدیث شریف سنتے فوراً یاد کرلیتے۔ دس سال کی عمر تک مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے زمانہ کے محدث کی درسگاہ میں شریک ہوئے۔ جب آپ کی عمر شریف سولہویں سال میں پہنچی تو حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کی جمع کی ہوئی تمام حدیثیں آپ کو زبانی یاد تھیں۔
حضرت امام بخاری کو اللہ تعالیٰ نے عجیب حافظہ عطا فرمایا تھا۔ آپ کی کمسنی اور علم و فضل کی فراوانی حیرت و استعجاب کا باعث بنی ہوئی تھیں۔ جب آپ بصرہ تشریف لے گئے تو وہاں آپ کی بہت پزیرائی ہوئی۔ بڑے بڑے اساتذہ اور محدثین نے آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ امام بخاری کو علم حدیث کا بے پناہ شوق تھا۔ انھوں نے اپنے وطن کو چھوڑکر دیارِ عرب کے جلیل القدر محدثین سے استفادہ کیا۔ خراسان، حجاز، عراق اور شام کے مختلف علاقوں کی علمی سیاحت کی اور علم و فضل کے پھول چنتے چنتے جب بغداد پہنچے تو وہاں کے محدثین آپ کی قوت حافظہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس وقت حضرت امام بخاری کی عمر قریب ۲۶ یا ۲۷ سال تھی۔ اگرچہ یہ زمانہ آپ کی جوانی کا تھا، لیکن آپ کے فضل و کرم کا شہرا اتنا عام ہو گیا تھا کہ دور دراز سے لوگ درس حدیث سننے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ خود حضرت امام بخاری فرماتے ہیں کہ جب میں نے ’’قضایائے صحابہ‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تو اس وقت میری عمر ۱۸سال تھی۔ اس کے بعد آپ نے مدینہ منورہ میں بیٹھ کر ’’کتاب التاریخ‘‘ لکھنی شروع کی۔
آپ کی سب سے اہم اور بلند پایہ تصنیف ’’صحیح بخاری‘‘ ہے۔ یہی وہ تصنیف ہے، جس نے حضرت امام بخاری کی شخصیت کو غیر معمولی بنادیا تھا۔ آپ نے صحیح بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، ذکاوت اور قوتِ حافظہ کا ہی استعمال نہیں کیا، بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی مرحلے طے کئے۔ پھر اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث شریف لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دورکعت نماز پڑھتے اور اس کے بعد ایک حدیث شریف تحریر فرماتے۔ اس سخت جانکاہی اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی۔ امت کے ہزاروں محدثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر پرکھا اور جانچا، مگر جو لقب اس مقدس تصنیف کے لئے من جانب اللہ تعالیٰ مقدر ہوچکا تھا، وہ پتھر کی نہ مٹنے والی لکیر بن گیا۔
بخاری شریف کے علاوہ حضرت امام بخاری کی تقریباً ۲۲ اہم اور بلند پایہ تصانیف ہیں، مثلاً تاریخ کبیر، جس کو آپ نے اٹھارہ سال کی عمر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے روضۂ اقدس کے پاس بیٹھ کر لکھا۔ تاریخ صغیر بھی آپ کی بے مثال تصنیف ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ اوسط، الجامع الکبیر، کتاب الہٰیہ، کتاب الضعفاء، کتاب العلل، کتاب البسوط وغیرہ بھی آپ کی مشہور کتابیں ہیں۔
حضرت امام بخاری کا حافظہ، ذکاوت و فقاہت، علم رجال میں کامل دسترس اور علل حدیث پر عبور، یہ ایسے حقائق تھے، جنھوں نے لوگوں کو مجبور کردیا کہ وہ آپ کے درس سے استفادہ کریں۔ آپ کی مجالسِ درس زیادہ تر بصرہ، بغداد اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ نہیں، جہاں امام بخاری کے تلامذہ سلسلہ بہ سلسلہ نہ پہنچے ہوں۔
حضرت امام بخاری کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی، جس سے آپ تجارت کرتے تھے، اس کے باوجود آپ نے بڑی سادہ زندگی گزاری۔ طالب علمی کے زمانے میں بسا اوقات آپ کو کئی کئی روز بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ رحمدلی اور خدا ترسی آپ کی زندگی کا جزو بن گئی تھی۔ یکم شوال المکرم ۲۵۶ھ کو بعد نماز عشاء آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔