حضرت امام انواراﷲ فاروقیؒ اور اصلاحِ نظام خانقاہی

ابوسعید
ہر صدی میں ایک یا متعدد ایسے انفاسِ طاہرہ کا انتخاب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کیا جاتا ہے جو نہ صرف عالم ، مدرس و مبلغ ہوتا ہے بلکہ وہ وقت کے تمام تقاضوں ، ضرورتوں اور دین کی ہمیتوں کو نور الٰہی کی اس شمع سے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اس کے سینے میں محفوظ کیا ،روشن کرتا ہے ۔ ایسے ہی انفاس کو عوام مجدد کے نام سے یاد کرتی ہے اور جب یہ لقب سرزمین دکن پر لیا جاتا ہے تو صرف ایک ذات ایسی ملتی ہے کہ جس نے اس خطہ کو اپنی محنتوں سے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے فیض سے سینچا اور گُلِ گلزار بنایا ، وہ ذات بلاشبہ امام انواراﷲ فاروقیؒ کی ہے ۔ اس میں سب کا اتفاق ہے کہ آپ نے ہرمیدان میں ، ہر شعبۂ حیات میں اپنی خدمات انجام دیں اور منصبِ تجدید کی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا ۔ آپ کی خدمات میں سے ایک عظیم خدمت خانقاہی نظام کی اصلاح و تربیت ہے۔
مشائخین کرام کہ جن کے پاس سالکین راہِ خدا اپنی منازل کو طئے کرکے منزلِ مقصود کو پہنچنا چاہتے ہیں اگر وہ خود بیدار نہ ہوں تو پھر سالک کا سلوک اور طریقت سب قیل و قال ہی بن جاتے ہیں ، اور حضور صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی باطنی وراثت آئندہ نسلوں کے لئے دشوار بن جاتی ہے ۔ لہذا شیخ الاسلامؒ نے جہاں ظاہری اسباب اور تقاضوں کی احیاء کا کام انجام دیا وہیں آپ نے مرشدین اور مشائخین کے لئے بھی ایک نصاب تیار فرمایا جس سے روحانیت و طریقت کی وہ اصلاحات جو صرف زبانوں پر ہیں لیکن دل اور سینے ان کے معانی سے ناواقف ہیں ، ان کو دوبارہ متعارف کروایا اور وہ مشائخین جو آئندہ بزرگانِ دین کی مسند ارشاد کے سجادے بننے والے ہوتے ہیں ، ان کے لئے اس نصاب کی تعلیم اور اس میں کامیابی کو شرطِ سجادگی قرار دیا۔ اس نصاب میں آپؒ نے بہترین انداز میں تصوف ومعرفت ، روحانیت و طریقت کی تمام اہم معلومات کو یکجا کروایا اور اس میں شیخ و مرید کی تعریف سے لیکر مراقبہ و مشاہدہ تک تمام منازلِ سلوک ، ان کی کیفیات و تفصیلات کو بیان فرمایا ۔ چنانچہ شرائط شیخ کے بیان میں آپؒ نے شاہ عبدالعزیزؒ کے حوالہ سے فرمایا کہ بیعت کے معنی اصطلاح اہل تصوف میں عقیدت کا ہاتھ مرشد کے ہاتھ میں دینا ہے اور اس منصب کے لئے ضروری ہے کہ شیخ علوم ظاہری و باطنی کا جامع ہو ، کیونکہ امام مالکؒ کے قول کے مطابق صرف تصوف کو اختیار کرنا اور فقہ اسلامی کو چھوڑدینا والا زندیق ہوجاتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ اگر شیخ علومِ قرآن و حدیث و فقہ میں مہارت رکھے گا تب ہی خود پابند ہوگا اور مرید کو بھی مشروعات کا پابند کرے گا اور نامناسب باتوں سے پرہیز کروائیگا۔ حتیٰ کہ امام شعرانیؒ نے یہ فرمایا کہ تمام صوفیاء اس بات پر متفق ہیں کہ جس شخص کو علوم شرعیہ میں تبحر نہ ہو اس میں اﷲ تعالیٰ کے راستے کی تعلیم کی صلاحیت نہیں ہوتی ۔ غرض کہ شیخ بننے کے لئے جن اُمور کا پایا جانا ضروری ہے اُس سے آپؒ نے آگاہ فرمایا اور مریدین کی تربیت کا اس لئے ذکر فرمایا تاکہ منصب مشیخیت پر بیٹھنے والا نہ اسلامی تعلیمات کو اپنے مطابق بیان کرتا رہے اور نہ بدنام کرے اور نہ ہی یہ دولت باطنی جو بزرگان دین کا حصہ اور اُن کی وراثت ہے اس کو کوئی نقصان پہنچے ۔
مزید شیخ الاسلامؒ نے صحبت اور اس کی اہمیت کا ذکر بھی فرمایا اور مرید کاشیخ سے اور شیخ کا مرید سے تعلق کیا ہو اس پر بھی بہت اہم وضاحت کی ہے تاکہ شیخ کسی سبب سے مرید سے قطع نہ ہو اور نہ مرید شیخ سے بلکہ صحبت اور اس کے آثر قلب پر وارد ہوں اور سلوک کے طئے ہونے میں آسانی ہو اور اگر ایسے نہ ہو تو یہ بھی صاحب سجادہ ہی کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے علم ظاہر و باطن سے مرید کے اخلاق ذمیمہ کو چھڑائے اور اخلاق حمیدہ سے متصف کروائے اور اگر وہ نہ کرسکے تو وہ شیخ کی صلاحیت سے خالی ہے ۔
نیز امام انواراﷲؒ نے دین اسلام کا مدعاء اور اس کی غرض کہ وہ انسان کو کیا بنانا چاہتا ہے پر تفصیل عطا فرمائی تاکہ خود سجادگان اس کے مطابق ہوکر، مریدین کو بھی اسی راہ پر گامزن کرسکیں۔
سال و ماہ کی گردش کے ساتھ ہی سجادگان میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو شیخ الاسلامؒ نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ ان میں سے ہر ایک کا چن چن کر موثر علاج بھی فراہم کیا ۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ ’’عارفِ کامل کے لئے اتباع شریعت کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘ اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے عقلی و منطقی دلائل کا ذخیرہ بھی پیش کیا گیا ، لیکن شیخ الاسلام نے اس بات کا بھی بہترین انداز میں حقیقت وجود کا ذکر کرتے ہوئے معرفت کو سمجھایا اور اس وجود کے لئے انسان کا بندگی بجالانا ، کیوں ضروری ہے اس کا بھی ذکر فرمایا اور ان باطل اوہام کا رد یہ کہہ کرفرمایا کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ سے نسبتِ بندگی حاصل ہے اور اس بندگی و عبادت کا نام پابندی شریعت ہے ، لہذا عارف کامل بھی اﷲ تعالیٰ کا بندہ ہے اور شریعت کی پابندی عارف کیلئے اشد ضروری ہے ، اس کا ترک کرنا کسی عارف کامل سے ممکن نہیں ۔
نیز شیخ الاسلامؒ نے جابجا خانقاہی نظام ، اُس کی فروغ اور اُن کی     ذمہ داریوں کی طرف سجادگان کی توجہ مبذول کروائی اور صوفیاء کے ایک ایک حال کا ذکر کیا اور اس کی شرائط بیان فرمادیں اور اس نصاب کے ذریعہ   قلعۂ طریقت کے اطراف ایسی مضبوط فصیل باندھی کے صدیوں تک اگر کوئی اس وراثتِ رسول ﷺ کے عظیم قلعہ میں باطل عقائد کے ذریعہ گھسنے کی جرأت کرے تو اسے اس کی ہر غلطی کا جواب میسر آجائے ۔ ساتھ ہی سجادگان اگر اس نصاب کے مطابق پابند ہوتے ہیں تو پھر اس اُمت مسلمہ میں اسلاف کی زندگیوں کی جھلک اور طہارت باطنی ، تزکیہ و تصفیہ کے نظارے عام ہوں ۔
اس نصاب کے ذریعہ شیخ الاسلام نے اس بات کابھی رد کردیا کہ علماء اور طریقت دو الگ باتیں نہیں ہیں بلکہ علم پر ترقی اور عمل انسان کے باطن میں نور پیدا کرتا ہے اور جب اس نور کو صحیح شیخ کی صحبت و تربیت حاصل ہوتی ہے تو وہی عارف ، عاشق اور شاھد بنتا ہے ۔غرضیکہ شیخ الاسلامؒ نے اپنی مجددیت کی چھاپ خانقاہوں اور طریقت کدوں پر بھی ایسی چھوڑی کہ نسلیں آپؒ کی ممنون و معترف اور آپ کیلئے دعاگو ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ ہمیں آپؒ کی زندگی اور تعلیمات سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ظاہری و باطنی اصلاح کی سبیل عطا فرمائے ۔ آمین