سید زبیر ہاشمی، مدرس جامعہ نظامیہ
ہم سب کے لئے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ آج ایک ایسی شخصیت کے متعلق پڑھنے کا موقع مل رہاہے کہ جس کو ساری دنیا سراج الائمہ، امام الائمہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کے متعلق بہت ہی اختصار کے ساتھ تحریر کیا جائیگا تاکہ ہم اس کو ذہن نشین کرلیں۔
ولادت با سعادت: قول مختار ہے کہ امام الامہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ الباری کی ولادت ۸۰ ہجری میں ہوئی۔
نام: نعمان ، کنیت: ابوحنیفہ ، لقب: امام اعظم۔ آپ اسم با مسمی ہیں۔ ائمہ حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کا نام نعمان ہے اور اس میں کئی لطیف راز ہے۔
٭ نعمان کی اصل ایسا خـون ہے جس سے بدن (ڈھانچہ) قائم ہوتا ہے۔
٭ یا نعمان کا لفظ نعمت سے فُعلان کے وزن پر ہے، پس امام ابوحنیفہ مخلوق پر اﷲ تعالیٰ کی نعمتِ عظمیٰ ثابت ہوئے۔
٭ بعض نے کہا : نعمان کا معنی روح ہے۔ پس امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ الباری ہی فقہ (یعنی تمام اسلامی احکام) کے دلائل اور مشکلات کے حل کی بنیاد ہیں۔
٭ نعمان کا معنیٰ سرخ خوشبو دار گھاس ہے اس معنی کی رَو سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ الباری کی عادات مبارکہ اچھی ہوئیں اور آپ کمال انتہاء کو پہنچے۔(ابن حجرہیتمی ، الخیرات الحسان) (بحوالئہ تذکرہ مسانید امام اعظم)۔
کنیت ’’ابو حنیفہ‘‘کے متعلق ہمارے کچھ اصحاب کا ذہن بنا ہوا ہے کہ وہ آپ کی صاحبزادی کی وجہ سے ہے۔ بلکہ یہ ایک سراسر غلط فہمی ہے کہ لفظ حنیفۃ حنیف سے مؤنث ہے۔ آپ کی یہ کنیت کسی صاحبزادی کی وجہ سے نہ تھی، کیونکہ حماد کے سوا آپ کی اور کوئی بھی مذکر یا مؤنث اولاد تھی ہی نہیں(ابن حجر ہیتمی، الخیرات الحسان) درحقیقت آپ کی یہ کنیت وصفی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لفظِ حنیف استعمال کرتے ہوئے سورئہ اٰل عمران اٰیت نمبر ۹۵ میں ارشاد فرمایاجس کا ترجمہ یہ ہے ’’فرمادیں کہ اﷲ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے، سو تم ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کرو جو ہر باطل سے منہ موڑ کر صرف اﷲ تعالیٰ کے ہوگئے تھے، اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے‘‘ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ الباری بڑے خوبصورت ، خوش گفتار اور شیریں لہجے والے تھے۔
آپ کی گفتگو فصیح و بلیغ واضح ہوتی ہے، چہرہ اچھا ، کپڑے اچھے ، خوشبو اچھی اور مجلس بھی اچھی ہوتی، بہت سخی تھے۔ کپڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے۔ بڑے بڑے سوداگروں سے معاملہ رہتا تھا۔ حضور نبی کریم علیہ السلام حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲتعالیٰ کو خوشخبری سناتے ہوئے ارشاد فرمائے جس کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ ہیں ’’اہل فارس کے ایک خوش نصیب شخص کے بارے میں خوشخبری دیئے ہیں‘‘(مسلم،باب فضل فارس)۔
چنانچہ حضرت شیخ الاسلام حافظ امام محمد انوار اﷲ فاروقی رحمہ اﷲ الباری (بانی جامعہ نظامیہ) حقیقۃ الفقہ جلد اول میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲتعالیٰ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ سن ۸۰ ہجری آپ کی پیدائش کا یہ وہ متبرک زمانہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین اُس میں موجود تھے مگر آفتاب وجود صحابہ غروب ہونے کو تھا اس لئے اشاعت علوم کا بازار گرم تھا۔ اُدھر صحابہ بحسب ارشاد فلیبلغ الشاھد الغائب سرگرم اشاعت علوم تھے ادھر مسلمانوں پر یہ خیال مسلط تھا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ارشاد اپنے نبی کریم ﷺ کا صحابہ ہی کے ساتھ واپس ہوجائے جس سے تمام امت مرحومہ محروم رہ جائے۔ تذکرۃ الحفاظ میں امام ذہبی ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲتعالیٰ نے انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کو کئی بار دیکھا ہے جس سے امام صاحب کا تابعی ہونا ثابت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲتعالیٰ کو فضل و حکمت اور علم عطا فرمایا ہے اور یہی وجہ تھی سب خوارج توبہ کرکے داخل اسلام ہوگئے۔ (اقتباس : حقیقۃ الفقہ جلد اول صفحہ ۲۲۳ تا ۲۲۷)
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ الباری تقریباً چار ہزار اساتذہ سے علوم حدیث حاصل کئے۔ بعض حضرات تو یہ کہے ہیں کہ صرف آپ کے تابعین شیوخ کی تعداد چارہزار ہیں۔ چند بڑے شیوخ کے اسماء یہ ہیں۔
٭ عطاء بن ابی رِباح ٭ محارب بن دثار ٭ عکرمہ مولیٰ ابن عباس ٭ نافع مولیٰ ابن عمر ٭ منصور بن معتمر ٭ عَمرو بن دینار ٭ امام محمد بن علی باقر ٭ امام جعفر الصادق وغیرھم۔
حضرت اما م اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ الباری کے بے حساب شاگرد ہیں بعض متأخر محدثین ان کے بارے میں بعض مقامات پر یہ بتلایا ہے کہ ۸۰۰ شاگردوں کے اسماء اور نسب کو تحریر میں لائے ہیں۔ اور بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ الباری کے شاگردوں کی تعداد تقریباً چار ہزار تک ہے۔
وصال: حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اﷲ الباری کا وصال ۲ شعبان المعظم ایک اور روایت کے مطابق ۱۵ شعبان المعظم (شبِ برات) ۱۵۰ ہجری میں ہوا ہے۔ اس طرح سے آپ کی عمر شریف ۷۰ برس ہوئی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون
zubairhashmi7@gmail.com