حضرت ابوالخیراتؒ اور نفس مطمئنہ

ایمان کامل ، یقین کامل ، نفس مطمئنہ اور اطمینان قلب جیسے موضوعات پر لکھنا یااظہارخیال کرنا اس فقیر کی حیثیت سے ماوراء ہے اس لئے کہ جب تک بندہ اس منزل میں قدم نہ رکھے اور بذات خود عبور نہ کیا ہو اس کے بارے میں نصوص یاائمہ سلف کی عبارتوں کو نقل کرنا محض نقل حکایت ہوگا جس کو نفس واقعہ کا بالذات ادراک و انکشاف ہی نہیں ۔
حضرت مولانا مفتی محمد ولی اﷲ قادری سابقہ شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ کی وہ ذات گرامی تھی جنھوں نے نود سال سے زائد عمر پائی تھی اور اپنے وقت کے اکابر سے اکتساب فیض کیا تھا اور اُمت کے عروج و زوال کے حالات و ادوار کو بچشم خود ملاحظہ کیا تھا جو تاریخ پر محققانہ اور مبصرانہ نظر رکھتے تھے ، ساری زندگی قرآن مجید اور علوم شریعت کی تعلیم و تدریس میں بسر کی ۔ ایک مرتبہ میں نے آپ کے آخری ایام میں استفسار کیا کہ اس قدر طویل قرآن اور علوم شریعت کی خدمت کے تناظر میں آپ کو اس دنیا میں کیا چیز حاصل ہوئی ؟ تو آپ نے برجستہ فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے مجھے اطمینان قلب کی نعمت سے سرفراز فرمایا ۔ مجھے افسوس ہے کہ کاش میں سوال کرلیتا کہ اطمینانِ قلب سے مراد کیا ہوتا ہے؟
حضرت مولانا ابوبکر محمد الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ سابق صدر مصحح دائرۃ المعارف العثمانیہ شہر حیدرآباد کے معروف علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ حضرت مولانا ابوالوفاء الافغانیؒ کی خصوصی تربیت میں پروان چڑھے تھے ، وہ تحقیق و تعلیق کے میدان میں نہ صرف دکن بلکہ پورے ہندوستان میں انفرادی مقام رکھتے تھے ، ان کو نرینہ اولاد نہ تھی ۔ جب دائرۃ المعارف العثمانیہ میں وظیفہ کے بعد عارضی طورپر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ آپ نے ایک مرتبہ دورانِ گفتگو فرمایا کہ ’’ہمارا رزق ختم ہوچکا ہے ، بہت جلد موت کا پروانہ آئیگا ‘‘، جبکہ وہ بظاہر صحت مند و تندرست تھے ، کوئی جان لیوا بیماری یا مہلک مرض میں مبتلا نہ تھے ، اچانک ایک رات شربت نوش کررہے تھے ، کچھ تکلیف محسوس ہوئی ، دواخانہ چلنے کی خواہش کی گئی آخری وقت آنے کااشارہ دیا اور انگشت شہادت آسمان کی طرف کی اور رخصت ہوگئے ۔ وہ کیسا اطمینان قلب تھا کہ ان کو ملازمت کے ترک ہونے کے بعد معیشت کی فکر درکار نہ تھی بلکہ پراُمید تھے ۔ اسباب رزق کی کمی ان کے لئے موت کی پیغامبر ہے ۔ شاید ایسی آسان موت کی تمنا کی جائے تو بجا ہے ۔
ہمارے ممدوح حضرت ابوالخیرات سید انواراللہ شاہ نقشبندی مجددی و قادریؒ حضرت ابوالحدیث محدث دکن سیدنا عبداﷲ شاہ نقشبندی مجددی و قادری علیہ الرحمۃ و الرضوان کے پوترے ہوتے ہیں۔ فطری طورپر آپ نہایت بلند ہمت واقع ہوئے تھے ۔ مشہور ہے ’’اﷲ تعالیٰ بلند ہمتوں کو محبوب رکھتا ہے ‘‘ ۔ راہِ سلوک میں مردانِ باہمت بلند سے بلند تر مقاماتِ قرب پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ روز بہ روز عروج و ارتقاء کی منزلیں طے کرتے رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی ذات میں بے پناہ خوبیوں اور کمالات کو ودیعت فرمایا تھا ، ان کو اپنے شیخ ، دادا حضرت سے اس درجہ کا عشق اور والہانہ عقیدت حاصل تھی جو حضرت محدث دکن کے ہزارہا قریبی مریدین کے عشق و محبت پر غالب تھی ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایمان کامل اور اطمینان قلب کی لازوال نعمت سے سرفراز فرمایا تھا ، توکل اور استغناء میں نرالی شان رکھتے تھے ۔ ان گنہگار آنکھوں نے ایسی بے نیاز ہستی آج تک نہیں دیکھی ۔ یہ محض ایک مرید کے قلبی جذبات ہی نہیں بلکہ اس فقیر نے ان کی صحت اور علالت دونوں دور کو قریب سے دیکھا ہے۔ آخری عمر میں آپ کو گردوں کا عارضہ لاحق ہوا ، خون کی کمی ہوتی گئی ، غذا بالکل نہیں چل رہی تھی ، روز بہ روز صحت گررہی تھی ۔ اس عارضہ میں میں نے بہت سے مریضوں کو دیکھا ہے ہفتہ دو ہفتے میں نوجوان طاقتور مریض کمزور و نحیف ہوجاتے ہیں ، ان کے چہرے کی رنگت کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے ، ان کے ظاہر سے کمزوری ، لاغری اور بیماری نمایاں ہوجاتی ہے لیکن دو تین سال کے طویل علالت کے عرصے میں مجھے ایک دن بھی ان کے چہرے پر کمزوری دکھائی نہیں دی ، ہر وقت ان کاچہرہ تروتازہ رہتا ۔ آپ کے چہرے اور گفتگو سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپ بیمار ہیں تاوقتیکہ اس کو اطلاع نہ دی جائے۔ اور جب رپورٹس کے بارے میں کچھ علم ہوتا تو ایسا محسوس ہوتا کہ آپ کی صحت حد درجہ خراب ہے ۔ نہ جانے وہ کیسا اطمینان قلب تھا کہ اس قدر شدید اور طویل علالت کے باوصف آپ کے چہرے پر کبھی اضمحلال نہیں پایا گیا ۔ انسانی زندگی کو پانی کے بلبلہ سے تعبیر کرتے ۔ وہ کسی بھی وقت موت کے لئے تیار تھے ۔ آپ کی ذات تک اس خانوادہ میں زندگی میں جانشین کو مقرر کرنے کا طریقہ نہ رہا ۔ آپ خداداد انتظامی صلاحیتوں کے حامل تھے ، نقشبندی چمن کے انتظامات کیلئے آپ نے اقدامات کئے لیکن اصل چیز روحانی سلسلہ کی ترویج کے لئے کسی کو جانشین مقرر نہیں فرمایا ۔ ایک مرتبہ آخری ایام میں فرمانے لگے : ’’حافظ صاحب! ہر عروج کے بعد زوال یقینی ہے دیکھو کون مردِ غیب آتا ہے اور غیب سے کیا انتظامات ہوتے ہیں ‘‘ ۔
آپ کا مطالعہ نہایت وسیع تھا اور حافظہ بلا کا تھا ۔ برجستہ واقعات سے استدلال کرتے ، جو آپ کی قوتِ استحضار کی دلیل تھی ، کسی بھی موضوع پر آپ کی گفتگو مربوط اور مدلل ہوتی اور اس قدر رواں ہوتی کہ گویا کہ سیل رواں ہے جو تھمنے کانام نہیں لیتا ۔کسی علمی محفل میں اس قدر مجھے علمی بے بضاعتی کا احساس نہیں ہوا جو آپ کی محفل میں ہوا کرتا۔ اکثر و بیشتر آپ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گزرجاتے اس خیال سے کہ میں ان واقعات اور نکات سے واقف ہوں اور کبھی اسی فیصد آپ کی علمی گفتگو کو میں سمجھ نہیں پاتا اور اس قدر روانی اور تسلسل ہوتا کہ میں کچھ سوال کرنے کی جسارت بھی نہیں کرسکتا۔آپ کو بطور خاص حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ العزیز اور حضرت نظام الدین محبوب الٰہی قدس سرہ العزیز سے بے پناہ لگاؤ تھا ۔ آپ کاسینہ قوم و ملت کی خدمت کے جذبات سے لبریز تھا جس کیلئے تفصیلی مقالات درکار ہیں تاہم آپ کی ذات میں ہم ایمانِ کامل ، توکل خالص ، استغناء اور نفس مطمئنہ کے عظیم جلوؤں کو دیکھا ہے ۔ نیز نفس مطمئنہ ، اخلاق رذیلہ سے صفائی اور اخلاق حمیدہ کے اتصاف کے بغیر ممکن نہیں ۔