ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
تاریخِ اسلا م کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس میں قربانیاں ہی قربانیاں ہیں۔
ماہِ ذوالحجۃ الحرام جوں ہی شروع ہوجاتا ہے تو حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کی یاد لازمی طور پر آتی ہے۔
٭ حج کے مناسک ہوں یا قربانی کا موقع
٭ مکہ مکرمہ کی وادی ہو یا منٰی و عرفات کی گھاٹیاں۔
٭ صفا و مروہ کی چٹانیں ہوں یا زمزم کا شیریں پانی۔
حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السلام کی یاد اسلام کے ماننے والوں میں ایک نیا جوش و خروش اور آپ کے تذکرہ سے مردہ دلوں کو زندگی ،مایوس دلوں کو حوصلہ و سکون اور مسلمانوں کے عقیدہ میں پختگی آتی ہے۔آپؑ کے تذکرہ سے مسلمانوں کے ایمان میں حلاوت ،عملِ صالح میں مداومت اورآخرت کی فکرِسلیم کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور دنیائے فانی کے حصول کا مادہ ختم ہوتا ہے۔
اﷲ رب العزت حضرات انبیاء عظام کو معجزے عطا فرمائے۔ کوئی نبی، بغیرمعجزہ کے تشریف نہیں لائے۔ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السلام کو بھی اﷲ رب العزت نے عظیم معجزات سے سرفراز فرمایا۔ اور آپؑ کی باعظمت زندگی کو ساری انسانیت کیلئے بہترین نمونہ بنایا۔
حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲعلیہ السلام کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور مرحلہ میں دین ِاسلام کی حیات و بقا کیلئے اپنا ہرلمحہ، ہرسانس قربان کردیئے۔ یہاں تک کہ مال، جان اور عزیز اولاد بھی اﷲرب العزت کی رضا کے خاطر قربان کردیئے۔
یادرکھیں!اﷲرب العزت جب کسی بندے کو اپنا چہیتا و محبوب بنالیتا ہے، تو اسے کڑی سے کڑی اور سخت آزمائش و امتحان کے مرحلہ سے گزارتا ہے اورجب بندہ امتحان میں کامیاب ہوتا ہے تو اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہے۔ حضرات انبیاء عظام علیہم السلام کی آزمائش صرف اس لئے ہوتی ہے کہ کائنات کو اِن حضرات کا عزم و استقلام اور ثابت قدمی بتائی جائے تاکہ امت، آزمائش و امتحان کے وقت ان کی ثابت قدمی کو پیشِ نظر رکھے اور اُسے فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہونے میں آسانی ہو۔ اسی مناسبت سے اﷲرب العزت ارشاد فرماتا ہے:
’’اور یادکر و اُسوقت کو جب (حضرت سیدنا) ابراہیم (علیہ السلام) کو اُن کے رب نے چند باتوں سے آزمایا تو انہوں نے اُسے پورا کیا‘‘۔
(سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۲۴)
مذکورہ آیت میں ’’کلمات‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ اس کی مختلف تفاسیر بیان کئے گئے ہیں۔ چوتھی صدی ہجری کے عظیم محدث حضرت ابن ابی حاتم رحمۃ اﷲعلیہ ’’کلمات‘‘ کی تفسیر میں ایک روایت نقل کئے ہیں:
’’حضرت سیدنا عبداﷲبن عباس رضی اﷲعنہما سے روایت ہے کہ : وہ کلمات، جن کے ذریعہ حضرت سیدنا ابراہیم ؑکو آزمایا گیا ،اُس سے مراد یہ ہے کہ جب اﷲرب العزت نے قوم سے علحدگی اختیار کرنے کا حکم فرمایا تو حضرت سیدنا ابراہیم ؑاپنی قوم سے علحدہ ہوگئے۔ آپؑ نے اﷲ رب العزت کے متعلق نمرود سے مناظرہ کیا یہاں تک کہ اسے ایسے معاملہ میں لاجواب کردیا جس میں اُن لوگوں کو اختلاف تھا۔ جب لوگوں نے آپؑ کو آگ میں جلانا چاہا تو آپؑ نے آگ میں ڈالے جانے پر صبر کیا۔ جب اﷲتعالیٰ نے قوم کو خیرباد کہنے کا حکم فرمایا تو آپؑ نے اپنے وطن اور ملک سے اﷲتعالیٰ کے لئے ہجرت فرمائی۔ آپؑ نے ضیافت و مہمانی کا معمول قائم رکھا اور صبر کیا، جب اﷲ رب العزت نے قربانی کا امر فرمایا تو آپ نے اپنے مال کو قربان کیا۔ اپنے عزیزفرزند کی قربانی کے ذریعہ آپ کا امتحان لیا گیا۔ پھر جب حضرت سیدنا ابراہیم ؑنے امتحان و آزمائش کی، ان تمام دشوار گذار گھاٹیوں کو عبور کرلیا اور آزمائش کی کسوٹی پر مکمل اُترے تو اﷲرب العزت نے آپ سے فرمایا : ’’ اَسْلِمْ‘‘ فرمابرداری کیجئے۔ آپ نے عرض کیا : ’’ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ میںنے اﷲرب العزت کی فرمابرداری کی، جو تمام عالَم کا پروردگار ہے۔ آپؑ کا یہ طریقۂ کار ایسے وقت رہا، جبکہ لوگ آپؑ کی مخالفت کرتے تھے اور آپؑ لوگوں سے علحدگی اختیار کرچکے تھے‘‘۔ (تفسیر ابن ابی حاتم )
اﷲرب العزت نے بندہ کو دنیا میں اس لئے بھیجا ہے کہ وہ رب تبارک وتعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ صبح و شام اس کی عبادت میں مشغول و مصروف رہے۔ ایک بندہ کو تین کاموں کی وجہ سے رب تبارک وتعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اور اس کو معرفت میں کمال درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔
نمبرایک: ذاتِ خدا کی معرفت، جو خود کی قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔
نمبر دو: صفات کی معرفت، جو اولاد کی قربانی سے ملتی ہے۔
نمبر تین : افعال کی معرفت، جو مال کی قربانی سے حاصل ہوتی ہے۔
جب تک یہ تینوں قربانیاں بارگاہِ الہٰی میں پیش نہ کی جائیں، تب تک اﷲرب العزت کی محبت کماحقہٗ نہیں ملتی۔ اور نہ بندہ اپنے قربانیوں کے بغیر ’کمال‘ پاسکتا ہے۔ (روح البیان۔ سورۃ الصافآت )
الغرض حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام نے اﷲرب العزت کی محبت کے حصول میں مذکورہ تینوں امور (قربانیاں) کو انجام دیئے۔ یعنی جان کی قربانی، مال کی قربانی اور عزیز اولاد کی قربانی۔
اسلامی برادران!حضرت سیدنا ابراہیم ؑکی زندگی میں آزمائشوں کا ایک سلسلہ رہا، جو صرف اور صرف آپؑ کی شان اور عظمت کے اظہار کیلئے تھا۔آپؑ کے عزم و استقلال پر ہزاروں مرتبہ بھی قربان جائیں تو کم ہے۔ہمیں بھی عزم و استقلال والے بننا چاہیے۔ عمل تو ضرور مشکل ہوگا، حالات سازگار نہیں رہتے تو اِس صورت میں حضرت سیدنا ابراہیم ؑکے عزم و استقلال پر گہری نظر ڈالیں توعزم و استقلال کے ساتھ، شریعتِ مصطفی صلی اﷲعلیہ وسلم پر عمل کرنے والے بن جائیں گے۔
اﷲ رب العزت ہمیشہ ہم تمام مسلمانوں کو شریعت پر پورے عزم و استقلال اور استقامت کے ساتھ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com