اسلام سے میری دلچسپی اس دور میں پیدا ہوئی، جب میں یہودیوں کے ’’سنڈے اسکول‘‘ کی طالبہ تھی۔ مجھے یہودیوں اور عربوں کے باہمی تاریخی تعلقات کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔ یہودیوں کی نصابی کتب سے مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تمام عربوں اور یہودیوں کے جدامجد تھے۔ میں نے ان کتب میں پڑھا کہ کئی صدیوں کے بعد جب قرون وسطی میں یورپ کے عیسائیوں نے یہودیوں کی زندگی ان پر تنگ کردی تو مسلم ریاست اسپین میں یہودیوں کو پناہ ملی اور عرب مسلم تہذیب کی فراخ دلی نے یہودی تمدن کو اس کے درجۂ کمال تک پہنچنے کا موقع دیا۔ جب میری عمر بیس برس ہوئی اور میں نیو یارک یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی تو میرا ایک اختیار مضمون ’’یہودیت اور اسلام‘‘ تھا۔ میرے پروفیسر ربی ابراہام آئزک کیٹش وہاں شعبۂ عبرانیات کے سربراہ تھے۔ انھوں نے تمام طلبہ کو اس بات کا قائل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ اسلام یہودیت ہی کے بطن سے پیدا ہوا۔ ہماری نصابی کتاب ان ہی کی لکھی ہوئی تھی، جس میں مصنف نے بڑی محنت سے قرآن حکیم کی ایک ایک آیت کا منبع و ماخذ یہودی تعلیمات قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ اگرچہ ان کا اصل مقصد اسلام پر یہودیت کی برتری ثابت کرنا تھا، مگر مجھ پر ان کی تدریس کا اثر اس کے بالکل برعکس ہوا۔ مجھے خاص طورپر اس بات نے یہودیت سے متنفر کردیا کہ واضح قرآنی تصور آخرت (یوم حساب و مابعد) کے باوجود یہودی فلسطین کی ملکیت کو اپنے لئے اللہ تعالی کا انعام اور اپنا حق سمجھتے تھے۔اسی دوران میں نے نیو یارک شہر میں مسلمانوں سے ملنے کے امکانات کا جائزہ لیا اور خوش قسمتی سے مجھے بہترین خواتین و حضرات کی شناسائی نصیب ہو گئی۔ باقاعدہ اسلام قبول کرنے سے قبل بھی مجھے یہ احساس تھا کہ آج کی دنیا میں ایمان کی سلامتی کو نام نہاد تحریک تجدد سے شدید خطرہ لاحق ہے، جو قوانین و تعلیمات الہیہ میں انسان کے گڑھے ہوئے نظریات اور ’’اصلاحات‘‘ کی ملاوٹ کرنا چاہتی ہے۔