جئے سمکھیا آندھرا پارٹی اور دیگر پارٹیوں میں قائدین کا تانتا
حیدرآباد ۔ 2 ۔ اپریل (سیاست نیوز) انتخابات کے اعلان اور بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دیئے جانے کے مرحلہ میں اچانک غیر سنجیدہ امیدوار بھی میدان میں کود پڑتے ہیں۔ تلنگانہ راشٹرا سمیتی ، کانگریس ، تلگو دیشم حتیٰ کہ سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی قائم کردہ جئے سمیکھیا آندھرا پارٹی کے پاس پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے کئی ایسے افراد پہنچ چکے ہیں جنہیں انتخابات یا کامیابی سے زیادہ پارٹی فنڈ کی فکر ہے۔ واضح رہے کہ بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کو اسمبلی اور لوک سبھا کیلئے علحدہ علحدہ طور پر فنڈس جاری کرتی ہیں تاکہ وہ انتخابی مہم بہتر طور پر چلاسکیں۔ غیر سنجیدہ امیدوار اس رقم کے حصول کیلئے ایسے حلقوں سے ٹکٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان پارٹیوں کی کامیابی کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے۔ ٹی آر ایس ، کانگریس ، تلگو دیشم اور دیگر پارٹیوں کو گریٹر حیدرآباد کے حدود میں واقع 24 اسمبلی حلقوں میں اس طرح کے غیر سنجیدہ ٹکٹ کے خواہشمندوں کا سامنا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر کے اسمبلی حلقوں سے ٹی آر ایس کا ٹکٹ حاصل کرنے کئی ایسے افراد رجوع ہوئے جنہوں نے ابھی تک پارٹی کی رکنیت تک حاصل نہیں کی۔
اسی طرح کانگریس ، تلگو دیشم اور جئے سمیکھیا آندھرا پارٹی میں بھی شہر کے اسمبلی حلقوں کا ٹکٹ حاصل کرنے کے خواہشمندوں کی کثیر تعداد دیکھی جارہی ہے ۔ شہر کے بیشتر اسمبلی حلقوں میں ٹی آر ایس ، تلگو دیشم ، وائی ایس آر کانگریس اور جئے سمیکھیا آندھرا کا کوئی خاص اثر نہیں ہے لیکن ان پارٹیوں کے دفاتر میں ایسے افراد دکھائی دے رہے ہیں جن کا مقصد صرف پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنا ہے۔ بڑی پارٹیاں عام طور پر اسمبلی حلقہ کے امیدوار کو 20 تا 25 لاکھ روپئے بطور پارٹی فنڈ جاری کرتی ہیں جبکہ لوک سبھا امیدوار کو تقریباً 50 لاکھ روپئے دیئے جانے کی اطلاع ہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن نے انتخابی مصارف کے سلسلہ میں اسمبلی کیلئے 16 لاکھ اور لوک سبھا کیلئے 40 لاکھ روپئے کی حد مقرر کی ہے ۔ انتخابی مہم میں کالے دھن کو روکنے کیلئے الیکشن کمیشن نے انتخابی مصارف کی حد میں اضافہ کردیا۔ ٹی آر ایس کے ایک سینئر قائد نے بتایا کہ حیدرآباد کے کئی اسمبلی حلقوں میں جہاں پارٹی کی کامیابی کے کوئی امکانات نہیں ہے، وہاں درخواست گزاروں کی تعداد زیادہ ہے۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ جئے سمیکھیا آندھرا پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے بھی کئی افراد رجوع ہورہے ہیں۔ حالانکہ اس پارٹی کا حیدرآباد کے اسمبلی حلقوں میں کوئی وجود نہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسے غیر سنجیدہ امیدوار کسی طرح ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے پارٹی فنڈ کی بچت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پارٹی سے لاکھوں روپئے حاصل کرتے ہوئے اس کا 10 فیصد بھی انتخابی مہم پر خرچ نہیں کیا جاتا اور مابقی رقم کی بچت کرلی جاتی ہے۔ اس طرح انتخابات بعض افراد کیلئے حصول آمدنی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ بڑی پارٹیوں نے صرف ان حلقوں میں مناسب فنڈس کی اجرائی کا فیصلہ کیا ہے جہاں کامیابی کے امکانات ہیں جبکہ کمزور اسمبلی حلقوں میں برائے نام پارٹی فنڈ دیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق پرانے شہر کے اسمبلی حلقہ جات کے علاوہ کوکٹ پلی ، صنعت نگر ، جوبلی ہلز اور عنبر پیٹ اسمبلی حلقوں کے ٹکٹ کے حصول کیلئے کئی افراد جئے سمیکھیا آندھرا پارٹی اور ٹی آر ایس سے رجوع ہوئے ہیں۔ اس طرح کے غیر سنجیدہ افراد سے نمٹنا پارٹیوں کیلئے درد سر بن چکا ہے۔