نئی دہلی۔ 16 ۔ جون (سیاست ڈاٹ کام) مختلف این جی اوز اور کاشتکاروںکی تنظیموں نے آج پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس پر پیش ہوکر مطالبہ کیا کہ حکومت کو حساس ترمیمات کی وضاحت کرنا چاہئے جو حصول اراضی قانون میں کی جارہی ہیں جبکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے کاشتکاروں کو مدد ملے گی لیکن عام آدمی کے ذہن میں یہ بات صاف نہیں ہے۔ اجلاس میں ایک کمپنی کے عہدیدار اور کاشتکاروں کی تنظیموں و این جی اوز کے درمیان گرما گرم بحث کے مناظر بھی دیکھے گئے۔ یہ عہدیدار تعمیراتی کمپنی کی نمائندگی کرتے ہوئے مشترکہ کمیٹی برائے حق منصفانہ معاوضہ و شفافیت برائے حصول اراضی ، بازآبادکاری اور تصفیہ (دوسری ترمیم) بل 2015 ء کے سلسلہ میں منعقد کیا گیا تھا۔ اجلاس کی صدارت ایس ایس اہلووالیہ کر رہے تھے۔ آج تنازعہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے نقاط نظر کی سماعت کا پانچواں دن تھا۔ اپوزیشن پارٹی کے چند ارکان نے کمیٹی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ خانگی افراد ہیں جن کا ایک اپنا ایجنڈہ ہے۔ ارکان نے کہا کہ انہیں افراد کے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میںپیش ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے،
بشرطیکہ وہ نامور تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن خانگی افراد کو اپنا ایجنڈہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ کمیٹی نے تنظیموں جیسے فاؤنڈیشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس، بھومی ادھیکار آندولن، سری سمایا، ودھی سنٹر برائے قانونی پالیسی، پی آر ایس لیجسلیٹیو ریسرچ اور ایک فرد دھنش کمار کو مدعو کیا تھا۔ پہلے دو بیانات حسب معمول رہے۔ ارکان نے اس وقت اعتراض کیا جب سری سمایا کا جو ممبئی کی ایک خانگی کمپنی ہے، مینجنگ ڈائرکٹر اپنا نقطہ نظر حساس بل کی تائید میں پیش کرنے لگا۔ کانگریس، ترنمول کانگریس ، بائیں بازو کی پارٹیوں اور آر جے ڈی کے ارکان نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ایم ڈی کے بیان کو مختصر کردیا۔ حصول اراضی قانون کے بارے میں حکومت کے آئندہ لائحہ عمل کے سلسلہ میں مختلف بیانات کے دوران اپوزیشن ارکان نے گزشتہ ہفتہ کئی مرکزی وزراء کو اس بارے میں بیان دینے سے روک دیا تھا کیونکہ ان کے بیانات ایک دوسرے متضاد تھے۔