نریندر مودی حکومت کے متنازعہ حصول اراضی بل کو لوک سبھا میں 9 ترمیمات کے ساتھ ندائی ووٹ سے منظور کرالیا گیا۔ یہ غور کئے بغیر کہ اس بل کی وجہ سے ہندوستان میں غریب عوام اور کسانوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سلسلہ میں اپوزیشن کی بات کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ مودی حکومت نے اپنے اختیارات اور عوامی خط اعتماد کا جائز و ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے یا نہیں یہ الگ بحث ہے مگر مودی حکومت نے ملک کے غریبوں، کسانوں کی زندگیوں پر کارپوریٹ گھرانوں کی منافع خوری کو ترجیح دی ہے۔ حصول اراضی قانون ہو یا حکومت کا کوئی اور قانون اس کے لئے لازمی ہے کہ مروجہ اُصولوں کو روبہ عمل لایا جائے۔ اصول یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں کسانوں سے حاصل کی جانے والی اراضیات کی قیمت مارکٹ قدر سے پانچ گنا ادا کی جائے۔ حکومت کے کسی بھی پراجکٹ کی شروعات کے لئے اراضی کا حصول لازمی ہوتا ہے اور اس کے لئے دیانتدارانہ طور پر حکومت کو کسانوں یا زمین کے مالکین کو مارکٹ قدر سے بڑھ کر قیمت ادا کرنی ہوتی ہے۔ حصول اراضی بِل میں اس خصوصیت کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بِل خطرناک اور غریب دشمن دفعات سے بھرپور ہے۔
اس سے ہندوستان کی غذائی سلامتی کو سنگین خطرہ ہے۔ کانگریس، ترنمول کانگریس، بائیں بازو اور بی جے ڈی کے احتجاج کو یکسر مسترد کردینا حکومت کی صحت کے لئے مناسب نہیں ہوتا۔ انا ڈی ایم کے اور تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے حیرت انگیز طور پر اِس بل کی تائید کی ہے۔ اِن دونوں جماعتوں نے ابتداء میں مخالفت کی تھی لیکن اب اپنا موقف تبدیل کرچکی ہیں اور اُن کا یہ دعویٰ ہے کہ جو ترمیمات اُنھوں نے پیش کی ہیں حکومت نے اسے قبول کرلیا ہے۔ بی جے پی کو اِس معاملہ میں خود اپنی حلیف جماعتوں کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اور شیوسینا رائے دہی کے وقت غیر حاضر رہی۔ اِس کے باوجود حکومت نے اس وقت اپنی اکثریت کی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تو اسے راجیہ سبھا میں بل کی منظوری کے لئے مشکلات ہوں گی۔ وزیر دیہی ترقی بریندر سنگھ نے اس بل کو لوک سبھا میں منظوری کے لئے پیش کیا تو کئی اپوزیشن ارکان نے اس کوشش کی مخالفت کی۔ یہ حکومت ملک میں غذائی اجناس کی قلت پیدا کرنے کی غرض سے بل منظور کرانے کوشاں ہے۔ زرعی شعبہ کو فروغ دینے کا عزم رکھنے والی مودی حکومت جب حصول اراضی قوانین کے ذریعہ کسانوں سے ان کی قیمتی اراضیات چھین کر کارپوریٹ گھرانوں کے حوالے کرے گی تو ملک میں اناج کی پیداوار کے لئے زمین بھی سکڑتی جائے گی جس کے بعد ہندوستان کی کثیر آبادی کو اپنے ہی ملک میں کارپوریٹ گھرانوں کے رحم و کرم پر رہنا پڑے گا۔
اِن دنوں بڑی کمپنیاں کسانوں کی اراضی حاصل کرکے اس پر ترکاریاں اور دالیں، اناج اُگاتے ہوئے اس زرعی پیداوار کی ضروری اشیاء پر اپنا کنٹرول رکھتے ہوئے قیمتوں میں من مانی اضافہ کررہے ہیں۔ ایسے میں مصنوعی غذائی قلت اجناس کی کمی کا بحران پیدا کرکے عام انسانوں کو فاقہ کشی کے لئے مجبور کردیا جائے گا۔ کسی بھی حکومت کو انسانوں کے حقوق چھین لینے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ نریندر مودی حکومت عوام کے خط اعتماد کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے اگر غریب عوام کا حق سلب کرنا چاہتی ہے تو چند افراد کی ووٹ دینے کی غلطی کا خمیازہ آئندہ سارے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔ اپوزیشن نے مودی حکومت کو کارپوریٹس کی حکومت اور غریب دشمن قرار دیا ہے۔ واقعی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت نے ملک کو کارپوریٹ گھرانوں کو فروخت کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ اس طرح کی کوششوں کو روکنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ عوامی بیداری پیدا کرتے ہوئے حکومت کی من مانی پر روک لگایا جاسکتا ہے۔ سماجی جہدکار انا ہزارے نے مودی حکومت کے اس متنازعہ حصول اراضی بِل کے خلاف ملک گیر احتجاج شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس احتجاج کو کامیاب بنانا عام آدمی کا کام ہے۔ 30 مارچ سے شروع ہونے والا یہ احتجاج مودی حکومت کے غرور کو توڑنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ملک کے غریب عوام کے حق میں مثبت ثابت ہوگا۔ مودی حکومت کی تیزی سے ہونے والی کارروائیوں سے عوام الناس کو بھاری مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا اس لئے اپوزیشن کو متحد ہوکر عوام الناس کے مستقبل کے تحفظ کے لئے ٹھوس کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔