حصول اراضی بل

بی جے پی کے زوال کی نشانی دارالحکومت دہلی کے در و دیوار پر لکھے جانے کے بعد اپوزیشن پارٹی کانگریس نے حصول اراضی بل کے خلاف ریالی نکال کر نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کی ایک ایک انچ آگے بڑھتی حکمرانی کی راہ میں چیلنجس کھڑے کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حکمراں بی جے پی حصول اراضی بل کے مسئلہ پر یکا و تنہا دکھائی دینے لگی ہے کیونکہ اس کی اپنی اہم حلیف پارٹیاں بھی پارلیمنٹ میں ترمیمی بل کی پیشکشی کو روکنے کیلئے تیار کردہ مورچہ میں شامل ہوگئیں۔ اس متنازعہ حصول اراضی بل کی مخالفت کرنے والی بی جے پی حلیف پارٹیوں میں بی جے ڈی ، انا ڈی ایم کے اور شرومنی اکالی دل ہیں۔ ان پارٹیوں نے بل کی جس طرح سے مخالفت کی ہے اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ نریندر مودی حکومت پارلیمنٹ میں بل کو قانونی شکل دے کر اپنا موافق امیر فیصلہ منظور کرانے میں کامیاب ہوگی ۔ بل کے مسئلہ پر بی جے پی کی سب سے بڑی حلیف پارٹی شیوسینا نے بھی حکمراں اتحاد کے اجلاس کابائیکاٹ کیا تھا۔ بی جے پی یا این ڈی اے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ گزشتہ سال ملک کے عوام کی اکثریت نے ان میں کسان برادری کی بڑی تعداد بھی شامل ہے نریندر مودی کے وزارت عظمیٰ کے تحت آنے والے اتحادی جماعتوں کو ووٹ دیا تھا اور اس این ڈی اے نے کسانوں کو تیقن دیا تھا کہ وہ لوگ ان کی خدمت کریں گے

لیکن جب حصول اراضی قانون کے ذریعہ مودی حکومت کسان دشمن پالیسی اختیار کرے گی تو اس کے زوال کو پر لگ جائیں گے ۔ کانگریس کو ایک اچھا اور گرما گرم موضوع مل گیا ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ کو مضبوط کرسکے ۔ اگر کانگریس حصول اراضی بل کی منظوری کو روکنے میں کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو اس سے پارٹی کی ساکھ بہتر ہوگی ۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم مودی نے بھی کچے گولیاں نہیں کھیلی ہیں ۔ انھوں نے بی جے پی کے تمام ارکان پارلیمنٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ بل کی جارحانہ طریقہ سے مدافعت کریں۔ مودی چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کا یہ پہلا بل کامیاب ہوتا ہے تو ماباقی بلوں کو منظور کرالینا ان کیلئے آسان ہوگا ۔ انھوں نے بل کی مخالفت کو نظر انداز کردیا اور ناقدین کی اس رائے کو بھی خاطر میں نہیں لایا ہے کہ یہ بل کسان دشمن اور ہندوستان کی غذائی سلامتی کیلئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ بل کی شدید مخالفت کو دیکھ کر بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کسانوں سے تجاویز حاصل کرنے کیلئے ایک پیانل بنایا ہے جس کی قیادت سابق مرکزی وزیر ستیہ پال ملک کررہے ہیں ۔ اس کمیٹی کو حاصل ہونے والی تجاویز بھی اگر مخالف بل ہوں تو ایسی صورت میں مودی حکومت کا موقف کیا ہوگا یہ پارلیمنٹ کے جاریہ سیشن میں معلوم ہوگا لیکن بل کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی ۔ کانگریس اس بات کی کوشش کررہی ہے کہ 2013 ء میں یو پی اے حکومت کی جانب سے تیار کردہ حصول اراضی قانون کو روبہ عمل لایا جائے ۔ اس بل میں غریب کسانوں کے ساتھ یکساں انصاف کیا گیاہے اور عام آدمی کو بااختیار بنایا گیا ہے ۔ آخر کانگریس اپنے دور حکومت کے بل کو برقرار رکھنا کیوں چاہتی ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے ۔ ہر پارٹی کو اپنی مرضی مسلط کرنے کی عادت پڑگئی ہے ۔ ہر پارٹی کے اپنے مفادات اور اس سے وابستہ امیر لوگوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے

۔کانگریس نے اپنے جن امیر دوستوں کو فائدہ پہونچانے کیلئے حصول اراضی قانون بنایا تھا اسکو پس پشت ڈال کر جب نریندر مودی حکومت نے ترمیمی بل تیار کیاتو ظاہر ہے اس میں بی جے پی کے امیر دوستوں کے مفادات کا خاص خیال رکھا گیا ہوگا ۔ ہر دو پارٹیوں کو غریب کسانوں سے زیادہ ان امیروں کے مفادات عزیز ہیں جن سے فنڈس لے کر یہ پارٹیاں اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیں ۔ اگر ملک کی ہر پارٹی یوں ہی غریب عوام اور غریب کسانوں کے مفادات کا سودا کرنے لگے تو ہندوستان ایک دن غذائی سلامتی کے سنگین بحران سے دوچار ہوجائے گا کیوں کہ جب غذا کی پیداوار کا سارا کنٹرول امیروں ، زمینات پر قبضہ کرنے والوں ، سود خوروں ، منافع خوروں کے ہاتھوں میں آجائے گا تو غذا کا حصول کسانوں اور عام آدمیوں کیلئے مشکل ہوجائے گا ۔ اس وقت غذائی سلامتی کے نام پر حکومت کی سطح پر جو اقدامات ہورہے ہیں وہ سارے دھوکہ دہی کی تعریف میں آتے ہیں۔ عموماً عام ہندوستانیوں کو حکومت کی چالاکیوں کا علم نہیں ہوگا جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے وہ اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے ملک کے عوام کے قدرتی وسائل اور اُن کے حقوق کا سودا کرتی ہے ۔یہی حال حصول اراضی قانون کے ذریعہ بھی ہونے والا ہے ۔ غریب کسانوں کی اراضی کو کوڑیوں کے دام خریدکر سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کا مقصد غریبوں کو بے گھر کرنا اور انھیں غذائی سلامتی سے محروم رکھنا ہے ۔مرکز کی مودی حکومت نے بل منظور کرا بھی لیا تو ریاستوں میں اس کو روبہ عمل لایا جائیگا یہ غیریقینی ہے کیوں کہ غیربی جے پی ریاستوں جیسے مغربی بنگال کی ممتابنرجی ، بہار کے نتیش کمار اور دیگر نے حصول اراضی بل کو روبہ عمل لانے سے انکار کردیا ہے ایسے میں بی حے پی حکومت کو سمجھداری سے کام لے کر حصول اراضی بل کی جن نکات پر مخالفت کی جارہی ہے ان کے بارے میں ازسرنو غور کرے اور اتفاق رائے سے قدم اُٹھاے۔