مولانا غلام رسول سعیدی
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ عشق و محبت کے پیکر اور ایثار و وارفتگی کا نمونہ تھے۔ وہ آپﷺ کے غسالہ (وضوء کے وقت جسم سے بہہ کر گرنے والا پانی) کو زمین پر گرنے نہیں دیتے تھے۔ تیروں کی بارش میں سپر بن کر آگے کھڑے ہو جاتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جان و مال نچھاور کرنا ان کی عین تمنا اور ایک نگاہ التفات کو پالینا ان کے لئے زندگی کا حاصل تھا۔ آنسوؤں سے مسکراہٹ تک، انھوں نے حیاتِ رسول کی ایک ایک ادا کو کتاب ذہن میں منقش کرلیا تھا۔ یہ سارے ہی آسمانِ عشق و محبت کے ستارے تھے، مگر جو محبت کا سوز اور عشق کا گداز حضرت ابوبکر کے ہاں نظر آتا ہے، وہ تاریخ محبت کے کسی اور صفحہ پر نہیں ملتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آسمان محبت کے نیرِ اعظم، وارفتگانِ رسالت کے مقتداء، حسن نبوت کی تجلیٔ اول اور مظہر انوار رسالت تھے۔
محبت کے ایک مرحلہ میں طالب کے نزدیک مطلوب کا وجود ہی حسن تمام ہوتا ہے، جو وصف اس کے محبوب میں ہو وہ حسن ہے اور جو صفت اس کے محبوب میں نہ ہو وہ قبح سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ محبوب کی مدح سن سکتا ہے، تاہم بُرائی کے لئے اس کے کان بہرے ہوتے ہیں۔ جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی شے کی محبت تمھیں اس کا عیب دیکھنے سے اندھا اور اس کا عیب سننے سے بہرا کردیتی ہے‘‘۔ اگر فی الواقعی محبوب میں نقص ہو تو وہ محب کو نظر نہیں آتا، تو جس کا محبوب ہو ہی حسن مطلق اور بے عیب تو اسے اپنے محبوب کی شان میں عیب سننا کب گوارا ہو سکتا ہے۔
ابوجہل نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا: ’’تم سا بدصورت کوئی نہیں‘‘ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تڑپ کے بے ساختہ پکار اُٹھے: ’’حضور! آپ جیسا حسین تو کوئی ہے ہی نہیں‘‘۔ جب محبت شدید ہوتی ہے تو محب کے ذہن میں ہر وقت محبوب کی فکر، زبان پر اس کا ذکر اور دل میں اس کی یاد رہتی ہے۔ وہ اس کے علاوہ کسی بات کو سوچ نہیں سکتا، اس کے بغیر کسی کو دیکھ نہیں سکتا۔ چنانچہ مشہور ہے کہ ’’جس کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے، وہ اسی کی یاد میں رہتا ہے‘‘۔ تب ہی تو جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا کہ ’’تمھیں دُنیا میں کیا پسند ہے؟‘‘ تو آپ بے اختیار بول پڑے: ’’بس حضور کے رخِ زیبا کو دیکھنا‘‘۔ (منہیات ابن حجر، صفحہ۲۱)
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو انگشتری دی کہ اس پر اللہ کا نام لکھوالاؤ۔ انگشتری پر بس اللہ کا نام ہو، رسول کا نام نہ ہو۔ عقل محض نے یہ مان لیا، مگر ابوبکر کے مزاج نے نہیں مانا، بے پناہ محبت ماننے کے لئے تیار نہیں ہوئی، چنانچہ آپ اللہ کے نام کے ساتھ اللہ کے رسول کا نام بھی لکھواکر لائے اور جب انگوٹھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو اس پر ’’اللہ، محمد اور ابوبکر‘‘ لکھا ہوا تھا۔ پوچھا: ’’تمھیں تو صرف ’اللہ‘ لکھانے کے لئے کہا تھا؟۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا: ’’حضور! آپ کا نام تو میں نے لکھایا ہے، کیونکہ مجھے پسند نہ آیا کہ میں اللہ کے نام سے آپ کا نام جدا کردوں، لیکن اپنا نام میں نے نہیں لکھوایا‘‘ (تفسیر کبیر، ج۱، ص۸۷) اتنے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حاضر ہوکر عرض کیا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابوبکر کا نام ہم نے لکھایا ہے۔ ابوبکر کو ہمارے نام سے آپ کے نام کی جدائی پسند نہیں اور ہمیں آپ کے نام سے ابوبکر کے نام کا فراق ناپسند ہے‘‘۔
کمالِ محبت کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ محبوب کے احکام کی اتباع کی جائے، اس کی رضا جوئی میں منہمک اور مستغرق رہے۔ جس طرح قرآن میں ارشاد ہے: ’’اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو تو حضور کی اتباع کرو‘‘ اور فرمایا: ’’اور اس کا رسول اس کے مستحق ہیں کہ انھیں راضی کرتے‘‘۔ تب ہی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہِ عشق کے سالکین دوڑ پڑے۔ کوئی اپنا چوتھائی مال لے کر آیا، کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر کا گھر اُٹھا لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’اپنے اہل کے لئے کیا چھوڑا؟‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’بس اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں‘‘۔ (مشکوۃ، ص۵۵۵)