بیروت ۔ 6 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) شام، ایران اور ان کے حمایت یافتہ حزب اللہ کیلئے اس علاقہ کی تین گنا اہمیت ہے۔ پہلی یہ علاقہ ملک کے کئی وسائل رکھتا ہے۔ روزانہ ایک لاکھ بیارل سے زیادہ پٹرول کی پیداوار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں عراق اور لبنان میں حزب اللہ کے ذریعہ ایران اپنے فیصلے ظاہر کرتا ہے تاکہ ایک ایسا پائیدار تجارتی راستہ قائم کیا جائے جو تہران کو براہ بغداد دمشق سے مربوط کرسکے۔ لبنان کیلئے اسے ایک اہم تجارتی اور فوجی مقاصد کا منتقلی کا راستہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حزب اللہ کی حکمت عملی کا دوسرا حصہ لبنان میں اقتدار مرکز کرنا ہے جو شام میں حزب اللہ کی تعیناتی کے پیش نظر ضروری ہے۔ صدر لبنان مائیکل عون اکٹوبر 2016ء میں منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ کوئی بھی اقدامات جن سے یہ گروپ برہم ہوجائے اور لبنان میں عدم استحکام پیدا ہوجائے، نہ کئے جائیں۔ لیکن ایسی پالیسی سے یہ بات بھی یقینی ہوگئی کہ غربت اور تعاون لبنان کے محکموں اور حزب اللہ کیلئے ایک نئی سطح پر پہنچ جائے گا۔ گذشتہ 4 سال میں حزب اللہ نے شام میں صدر شام بشارالاسد کی وفادار فوج کے شانہ بشانہ جنگ کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ شامی سرزمین کے 60 فیصد حصے اور دو تہائی آبادی پر اس کا اثرورسوخ قائم ہوجائے۔ تنظیم کی یہ کامیابی اس کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جو اس نے لبنانی اور شامی علاقوں میں انجام دی ہے۔ ان علاقوں پر قبضہ کیا ہے ۔ اپنا اقتدار مرتکز کیا ہے اور جنگ کی مزید تیاری کی ہے۔