انسان کو تین چیزیں یعنی ۱۔حرص ۲۔ حسد اور۳۔ غرور، تباہ و تاراج کردیتی ہیں لیکن عصرحاضر کے ترقی یافتہ دورکا تاریک پہلو یہ کہ یہ تینوں چیزیں آج بعض اساتذہ میں پائی جاتی ہیں جنہیں قوم و ملت کا معمار کہا جاتا ہے۔ جب اساتذہ کا ہی یہ عالم ہو کہ وہ خود تباہی کے دہانے پر کھڑے ہوں یا ایسی صفات میں مبتلاء ہوں جو انہیں نیست و نابود کردیں تو اس طالب علم سے بھلائی اور خیرخواہی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے جو ان اساتذہ کے زیراثر تربیت پا رہے ہوں۔ کہتے ہیں کہ ایک لڑکے نے اپنے والد سے کہا کہ ابا جان باہر کوڑا والا (یعنی کچرا لے جانے والا) آیا ہے تب والد نے اپنے لخت جگر سے کہا بیٹے کوڑا پھیلانے والے تو ہم ہیں وہ تو کوڑا صاف کرنے والا ہے اگر وہ نہ ہوتے تو نہ صرف ہمارا گھر کوڑا دان بن جاتا بلکہ کوڑے کے تعفن کے باعث سارے گھر کی فضاء آلودہ ہوجاتی۔ ذرا غور فرمائے کہ اس چھوٹی سی بات میں تربیت اولاد کا کتنا بہترین اور دلنشین انداز پوشیدہ ہے۔ بعض اساتذہ کی اسی تربیتی پہلو کو نظرانداز کرنے کا ہی خمیازہ ہے کہ نوجوان نسل اپنا زیادہ تر وقت مطالعہ کے بجائے جونیر و ڈگری کالجس (بشمول اقلیتی اداروں) کے احاطے میں اساتذہ کی موجودگی میں انجوئے، فیشن اور کلچرل پروگرام کے نام پر فحاشی کے تمام حدوں کو پار کررہے ہیں تو دوسری طرف تفریح گاہوں اور فارم ہاؤز پر دھڑکاتی موسیقی سننے، واہیات رقص و سرور اور مصنوعی بارش سے لطف اندوز ہونے میں گذار رہے ہیں، جس کے سبب نوجوان نسل میں بے حیائی و بے غیرتی کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ نئی نسل نیکی کے کام کرنے پر شرم اور بے حیائی اور گناہ کے کام کرنے پر فخر محسوس کرنے لگی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی یہی منفی سونچ سارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کررہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسانی معاشہ عدیم النظر ترقی حاصل کرنے کے باوجود اندر سے ریت کی دیوار کی طرح گرتا جارہا ہے۔ استاد جنہیں کبھی انتہائی عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، طلباء اساتذہ کرام سے نگاہ ملا کر بات کرنے کی جرأت نہیں کرپاتے تھے لیکن آج طلباء ان کے ساتھ مذاق کرنے بھی کوئی عار محسوس نہیں کررہے ہیں
جو کہ انسانی ذہن کے زوال کا عکاس ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ تعلیم کا تجارت میں تبدیل ہوجانا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر محلہ، گلی میں مدرسہ، اسکول نظر آئیں گے جن کے نام بڑے ہائی فائی اور ثقیل ہوتے ہیں، لیکن معیارِ تعلیم ندارد۔ دوسرے یہ کہ نوجوان نسل کا تعلیماتِ اسلامی سے عدم واقفیت اور تیسرے خود اساتذہ بھی اس کے بڑے حد تک ذمہ دار ہیں چونکہ بعض مفاد پرست اساتذہ اس مقدس پیشہ کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے داغدار کررہے ہیں۔ آج کی دانش گاہوں میں بعض اساتذہ ایسے بھی ہیں جو متمول خاندان سے تعلق رکھنے والے طلباء کو خصوصی مراعات دیتے ہیں،
ان کو بڑی عزت دیتے ہیں اوران پر اساتذہ کی خاص نظر عنایت ہوتی ہے جبکہ یہ عمل استاد کے شایانِ شان نہیں ہے۔ عباسی دور کے پانچویں خلیفہ ہارون رشید نے اپنے فرزندوں یعنی ابو جعفر عبداللہ المامون اور محمد الامین کی تعلیم و تربیت کے لئے مالکی مذہب کے بانی شیخ الاسلام امام مالک بن انس ؓ المعروف بہ امام مالک سے درخواست کی تو آپ نے ہارون رشید کے سامنے کچھ شرائط رکھیں منجملہ ان کے ایک شرط یہ بھی تھی کہ مامون اور امین دیگر عام طلباء کے ساتھ بیٹھ کر مدرسہ میں تعلیم حاصل کریں گے۔ اس طرزِ تعلیم و تربیت کا اس قدر حوصلہ افزاء نتیجہ نکلا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ان بھائیوں کو آپس میں صرف اس لئے جھگڑتے ہوئے دیکھا کہ ان میں سے استاد کی جوتیاں کون سیدھی کرے گا۔ ایسے طلباء سارے معاشرے کے لئے کس قدر نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوں گے اس کا صحیح اندازہ کون کرسکتا ہے۔ آج کے معاشرے کو ایسے جلیل القدر اساتذہ کرام اور پرخلوص و محنتی طلباء کی اشد ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا واقعہ کی روشنی میں جب ہم آج کے طلباء کو دیکھتے ہیں تو وہ اخلاقی پستی کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ وہ اساتذہ ہیں جو تعلیم کو تجارت کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ تعلیم کے گرتے ہوئے معیار اور استاد و طالب علم کے بگڑتے ہوئے رشتوں کے ذمہ دار یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے بعض قواعد بھی ہیں۔ تدریسی عملے کی ترقی کیلئے یو جی سی نے جو قواعد نافذ کئے ہیں اس کے کئی منفی اثرات سامنے آرہے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ بعض اساتذہ درس و تدریس، تعلیم و تعلم سے زیادہ ان قواعد کی تکمیل کرنے پر توجہ مرکوز کررہے ہیں نتیجتاً طلباء کا قیمتی تعلیمی سال ضائع ہورہا ہے۔
دوسرا یہ کہ علم سے شغف رکھنے والے اساتذہ کرام جو دنیوی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر طلباء کی بہتری اور ان کو ذمہ دار شہری بنانے کوشاں رہتے ہیں انہیں ترقی سے مرحوم ہونا پڑت ہے جبکہ دوسری طرف وہ اساتذہ جنہیں نہ علم و تحقیق سے کوئی لگاؤ ہے اور نہ ہی طلباء برادری کی بہتری سے کوئی دلچسپی ان کا نصب العین تو صرف یو جی سی کے مطلوبہ شرائط کی تکمیل کرنا ہے وہ اپنے دنیوی مفادات کے حصول کے لئے جائز اور ناجائز ہر طریقے و ذرائع کا استعمال کررہے ہیں۔ استاد جیسے مہذب و معزز پیشے کو نیلام کررہے ہیں۔ اس طرح وہ باآسانی ترقی پا رہے ہیں اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ عصری جامعات کے تقریباً شعبہ جات میں طلباء کی حاضری نہ کے برابر ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے گویا یونیورسٹیوں میں ’’قحط الطلباء‘‘ کا دور دورہ ہے۔ جب طلباء ہی نہ ہوں تو علمی مباحث کہاں سے ہوں گی؟ جب علمی مشاغل، تحقیق و تدبر ہی نہ ہوگا تو اکتشافات و اختراعات کی راہیں کیسے ہموار ہوں گی؟ آج ہمارے پاس اعلیٰ ڈگریاں بہت ہیں لیکن ہم فکرونظر کی دولت سے یکسر محروم ہیں۔ یہ بات مسلّم ہیکہ جو علم بہ ہمہ وجود عمل سے متفق نہ ہوگا وہ شیطانی روش کی طرف لے جانے والا ہوگا۔ اس شخص سے بڑا بدبخت اور زیاں کار اس دنیا میں کون ہوسکتا ہے جس کے پاس علم ہو لیکن وہ معصیت میں مبتلاء ہو چونکہ ایسے صاحبِ علم کے مقدر میں تباہیوں، بربادیوں، جگ ہنسائیوں اور رسوائیوں کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ عمل کے بغیر علم ایسے ہی ہے جیسے رہ خزاں میں تلاشِ بہار کرنا۔
اساتذہ کی اس گرتی ہوئی ساکھ کو وہی اساتذہ کرام بچا سکتے ہیں جنہیں دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر لاحق رہتی ہے چونکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یہ سوال نہیں فرمائے گا کہ ہم نے کتنی کتابیں تصنیف کیں یا کتنے سمینارس میں مقالے پڑھے یا کتنے عہدے پر فائز ہوئے بلکہ یہ ضرور پوچھے گا کہ ہم نے اپنے طلباء کی کس نہج پر تربیت کی، اپنی ذمہ داریوں سے کہاں تک انصاف کیا اور طلباء کو علم و عمل کا پیکر بنانے میں ہم نے کیا کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سے ہماری تنخواہ یا مراعات کے بارے میں سوال نہیں فرمائے گا بلکہ ہم نے اپنی علمی لیاقت کا کس قدر اور کس سمت میں استعمال کیا اس کے بارے میں ہم سے ضرور بازپرس ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہیکہ بطفیل نعلین پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سیدالمرسلین طہ و یٰسین۔