حدیث

حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ملاقات مدینہ کے ایک راستہ میں ابن صیاد سے ہو گئی تو انھوں نے اس سے ایک ایسی بات کہہ دی، جس سے وہ غضبناک ہو گیا اور جوش غضب سے اس کی رگیں پھول گئیں۔ اس کے بعد جب حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اپنی بہن) ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں گئے، جن کو اس واقعہ کی خبر پہنچ چکی تھی، تو انھوں نے فرمایا: ’’اے ابن عمر! خدا تم پر اپنی رحمت نازل کرے، تم نے ابن صیاد سے کیا چاہا تھا (کہ اس کو اس قدر غضبناک کردیا) کیا تمھیں معلوم نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’دجال کسی بات پر غضبناک ہوکر نکل پڑے گا‘‘۔ (مسلم)
یعنی دجال کسی بات پر غصہ ہوگا اور وہ غصہ اس کو اتنا مشتعل کرے گا کہ وہ نکل پڑے گا اور یکدم نبوت یا خدائی کا دعویٰ کربیٹھے گا۔ پس اے ابن عمر! تم ان صیاد کو غضبناک و مشتعل نہ کرو اور اس سے کوئی بات نہ کرو، تاکہ وہ خروج نہ کرے اور دنیا والے اس کی فتنہ پردازی سے محفوظ رہیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس طرح منع کیا تو بظاہر اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انھوں نے سوچا کہ شاید ابن صیاد ہی دجال ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق کہیں ابن عمر ہی اس کے خروج کا ظاہری سبب نہ بن جائیں، بلکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت حفصہ اس کے دجال ہونے کا یقین ہی رکھتی ہوں۔
حضرت محمد بن منکدر تابعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دیکھا، وہ قسم کھاکر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ’’آپ اللہ کی قسم کھا رہے ہیں (حالانکہ ابن صیاد کا دجال ہونا صرف ظنی ہے نہ کہ یقینی)‘‘۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو سنی، وہ اس بات پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم کھاتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے اور آپﷺ نے اس سے انکار نہیں فرمایا۔