حدیث

حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکری کے ایک ایسے مردہ بچہ کے پاس سے گزرے، جس کے کان بہت چھوٹے تھے یا گٹے ہوئے تھے، یا اس کے کان تھے ہی نہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے (اس کو دیکھ کر صحابہ سے) فرمایا کہ ’’تم میں ایسا کوئی شخص ہے، جو اس (مردہ بچہ) کو ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے؟‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ’’ہم تو اس کو کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں کرسکتے!‘‘۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! یہ دنیا (اپنی تمام لذتوں اور آسائشوں کے ساتھ) خدا کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بے وقعت و کمتر ہے، جیسا کہ تمہاری نظر میں یہ مردہ بچہ ذلیل و حقیر ہے‘‘۔ (مسلم)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے اس مردہ بچہ کی مثال کے ذریعہ درحقیقت اس طرف متوجہ فرمایا کہ یہ دنیا ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ انسان اس کی محبت و طلب میں آخرت کے نفع و نقصان کو فراموش کردے، بلکہ اصل چیز آخرت کی محبت و طلب ہے، جہاں کی زندگی بھی لافانی ہے اور جس کی نعمتیں بھی لازوال ہیں، لہذا مقصود زندگی آخرت کی محبت و طلب ہونا چاہئے، نہ کہ دنیا کی محبت و طلب۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ ’’دنیا کی محبت و چاہت ہر گناہ کی جڑ ہے‘‘ اور ’’دنیا سے بے اعتنائی، ہر عبادت کی بنیاد ہے‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار رہنے والا اپنے اعمال میں مخلص و پاکیزہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ہر کام کسی فاسد غرض و لالچ کی آمیزش رکھتا ہے، خواہ وہ کوئی دینی اور مذہبی کام ہی کیوں نہ کرے۔ اس کے برخلاف جو شخص دنیا سے بے اعتنائی اختیار کرتا ہے، اس کے ہر عمل میں اخلاص و پاکیزگی اور آخرت کا مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ کسی دنیاوی کام ہی میں کیوں نہ مشغول ہو!۔ اسی لئے کسی عارف نے کہا ہے کہ ’’جس نے دنیا کو اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز بنالیا ہے، اس کو تمام مشائخ اور مرشدین مل کر بھی راہ راست پر نہیں لاسکتے اور جس نے دنیا سے بے اعتنائی کو اپنا شیوہ بنالیا، اس کو دنیا بھر کے مفسد و بدکار لوگ بھی گمراہ نہیں کرسکتے!‘‘۔