حدیث

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہاری (دنیا کی) آگ دوزخ کی آگ کے ستر (۷۰) حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘‘۔ عرض کیا گیا ’’یارسول اللہ! یہ تو دنیا کی آگ ہی (عذاب دینے کے لئے) کافی تھی (پھر اس سے بھی زیادہ حرارت و تپش رکھنے والی آگ پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟)‘‘۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ’’دوزخ کی آگ کو یہاں (دنیا کی) آگ سے انہتر (۶۹) حصہ بڑھا دیا گیا ہے اور ان انہتر حصوں میں سے ہر ایک حصہ تمہاری (دنیا کی) آگ کے برابر ہے‘‘۔ اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے، لیکن یہاں مذکورہ الفاظ بخاری کے ہیں اور صحیح مسلم کی روایت یوں ہے کہ ’’تمہاری (دنیا کی) یہ آگ جس کو ابن آدم (انسان) بتلاتا ہے، دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)

دنیا کی آگ کا دوزخ کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی آگ جو درجہ حرارت رکھتی ہے، اس سے دوزخ کی آگ ستر گنا زیادہ گرم ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ ستر کے عدد سے مراد دنیا کی آگ کے مقابلہ میں دوزخ کی آگ کی شدت و زیادتی کو بیان کرنا ہو، نہ کہ یہ خاص عدد ہی مراد ہے۔ گویا اصل مفہوم یہ ہوگا کہ دوزخ کی آگ تمہاری دنیا کی آگ کے مقابلہ میں بہت زیادہ درجہ حرارت رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ اگر کسی انسان کو سزا دینے کے لئے اس دنیا کی آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ جل کر کوئلہ ہو جائے گا، مگر دوزخ کی آگ جس کو تیار کی گئی ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ اس کی گرمی دنیا کی آگ سے بہت زیادہ ہو، تاکہ خدا کا عذاب دنیا والوں کے عذاب سے ممتاز رہے۔