حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(قیامت کے دن) اعمال (خدائے بزرگ و برترکے حضور) آئیں گے۔ پس (سب سے پہلے) نماز پیش ہوگی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار! میں نماز ہوں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: ’’بے شک تو بھلائی ہے‘‘۔ پھر صدقہ یعنی زکوۃ پیش ہوگی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار! میں صدقہ ہوں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: ’’بے شک تو بھلائی ہے‘‘۔ اور پھر روزہ پیش ہوگا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار! میں روزہ ہوں۔ اللہ تعالی فرمائے گا: ’’بے شک تو بھلائی ہے‘‘۔ اسی طرح (یکے بعد دیگرے) دوسرے اعمال (جیسے حج، جہاد اور طلب علم وغیرہ) پیش ہوں گے (اور ہر ایک عمل مذکورہ بالا الفاظ میں اپنا تعارف پیش کرے گا) اور اللہ تعالی فرمائے گا کہ تو خیر پر ہے (گویا ہر نیک عمل اپنے تعارف کے ذریعہ بندوں کے حق میں جو شفاعت کرے گا، اس کی قبولیت کو حق تعالی موقوف رکھے گا اور ہر ایک کی درخواست کو نہایت ملائمت و نرمی اور مہربانی کے ساتھ ملتوی رکھے گا) پھر (سب سے آخر میں) اسلام پیش ہوگا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار! تیرا نام سلام ہے (کہ تیری ذات تمام عیوب و آفات اور ہر طرح کے نقص سے سالم و پاک ہے اور تو تمام بندوں کو ہر طرح کے خوف اور تمام سختیوں اور مصیبتوں سے سلامتی بخشنے والا ہے) اور میں اسلام ہوں (کہ تیرے حضور عجز و نیاز کرنے والا اور تیرے احکام کا مطیع و فرماں بردار ہوں۔ نیز میرے بارے میں تونے خود فرمایا: ’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے‘‘۔ پس اللہ تعالی فرمائے گا: ’’بے شک تو بھلائی پر ہے، آج کے دن میں تیرے ہی سبب مواخذہ کروں گا اور تیرے ہی وسیلہ سے عطا کروں گا…‘‘۔