حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میت کے ساتھ (قبر تک) تین چیزیں جاتی ہیں، ان میں سے دو چیزیں تو (اُس کو اکیلا چھوڑکر) واپس آجاتی ہیں اور ایک چیز اُس کے ساتھ رہ جاتی ہے۔ چنانچہ اس کے متعلقین (جیسے اولاد، عزیز و اقارب، دوست و احباب اور جان پہچان کے لوگ) اور اس کے اموال (جیسے نوکر چاکر، پلنگ، جانور، گاڑی وغیرہ اور اسی طرح کے اسباب) اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں، ان تینوں میں سے متعلقین اور مال تو (اس کو تنہا چھوڑکر) واپس آجاتے ہیں اور اُس کے اعمال اس کے ساتھ رہتے ہیں‘‘۔ (بخاری مسلم)
’’اعمال‘‘ سے مراد وہ ثواب و عذاب ہے، جو ہر اچھے برے عمل پر مرتب ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوکر آخرت کی پہلی منزل (قبر) میں پہنچتا ہے تو وہاں سے وہ مرحلہ شروع ہو جاتا ہے، جہاں سے عزیز و اقارب، دوست و احباب، مال و دولت اور جاہ و حشم سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور صرف وہ اعمال اس کے ساتھ رہ جاتے ہیں، جو اس نے دنیا میں کئے تھے۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ ’’قبر اعمال کا صندوق ہے‘‘۔
اگر لوگ اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس جو مال و دولت ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ ان ہی کو پہنچے تو چاہئے کہ وہ اس مال و دولت کو یہاں دنیا میں جمع کرنے اور یہیں چھوڑنے کی بجائے آخرت میں کام آنے کے لئے آگے بھیجیں، جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو صدقہ و خیرات اور نیک کاموں میں خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ ثواب کمائیں۔