حدیث

حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اس امت کی پہلی نیکی یقین کرنا اور زہد اختیار کرنا ہے اور اس امت کا پہلا فساد بخل اور دنیا میں باقی رہنے کی آرزو کو دراز کرنا ہے‘‘۔ (بیہقی)
’’یقین‘‘ سے مراد ہے اس بات پر کامل اعتقاد و یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رزاق ہے اور رزق پہنچانے کا متکفل و ضامن ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’روئے زمین پر ایسا کوئی چلنے والا (جاندار) نہیں ہے، جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو‘‘۔

’’زہد اختیار کرنے‘‘ کا مطلب دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچنا اور دنیا کی نعمتوں و لذتوں سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتنا ہے۔ حاصل یہ کہ دین و آخرت کی بھلائی و کامیابی کا مدار تقویٰ پر ہے، جو زہد و یقین سے حاصل ہوتا ہے اور دین و آخرت کی خرابی کی جڑ طمع و لالچ ہے، جو بخل اور درازی عمر کی آرزو سے پیدا ہوتا ہے۔
چنانچہ جب حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کامل اعتقاد و یقین ہوتا ہے تو بخل کا مادہ فساد نہیں پھیلاتا، کیونکہ بخل کا سبب وہ بے یقینی ہوتی ہے، جو رزق پہنچنے کے تئیں انسان اپنے اوپر طاری کرلیتا ہے، یعنی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرے پاس جو مال و زر ہے، اگر میں نے اس کو انفاق و ایثار کی صورت میں خرچ کردیا تو پھر کل کہاں سے کھاؤں گا!۔ اسی طرح جب زہد کی راہ اختیار کی جاتی ہے تو دنیا میں باقی رہنے کی تمنا اور آرزوؤں کی درازی ختم ہو جاتی ہے، اس لئے یہ فرمایا گیا کہ اس امت کا پہلا فساد بخل اور آرزو ہے، کیونکہ یہ دونوں خصلتیں رزاقیتِ حق پر یقین اور زہد کی ضد ہیں۔