حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن (میدان حشر میں) حضرت نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے (اپنی امت تک اللہ تعالی کے احکام دین و ہدایت) پہنچائے تھے؟‘‘۔ وہ عرض کریں گے کہ ’’بے شک! اے میرے پروردگار!‘‘ (میں نے تیرے احکام دین و ہدایت اپنی امت کے لوگوں تک پہنچائے تھے) پھر حضرت نوح علیہ السلام کی امت (کے ان لوگوں سے کہ جن تک حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالی کے احکام دین و ہدایت پہنچائے تھے) پوچھا جائے گا کہ ’’کیا (نوح علیہ السلام نے) تم تک ہمارے احکام پہنچائے تھے؟‘‘۔ وہ لوگ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ ’’ہمارے پاس تو کوئی بھی ڈرانے والا (خواہ وہ نوح ہوں یا اور کوئی نبی) نہیں آیا تھا اور پھر حضرت نوح علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ ’’تمہارے گواہ کون ہیں؟‘‘ (یعنی اگرچہ اللہ تعالی خوب جانتا ہوگا کہ نوح علیہ السلام نے جو کچھ کہا ہے بالکل درست کہا ہے، لیکن ان کی منکر امت کو قائل کرنے کے لئے حضرت نوح علیہ السلام سے ان کے اس دعوے پر گواہ طلب کرے گا کہ انھوں نے منصب تبلیغ و رسالت کی ذمہ داریوں کو پورا کیا تھا) چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کہیں گے کہ ’’میرے گواہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کے لوگ ہیں‘‘۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) فرمایا کہ ’’تب تمھیں پیش کیا جائے گا اور تم یہ گواہی دو گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے امت کو احکام خداوندی پہنچائے تھے‘‘۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس صورت واقعہ کی تصدیق و تثویب کے لئے) یہ آیت پڑھی (جس میں حق تعالی امت محمدی کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اور اسی لئے ہم نے (اے مسلمانو!) تمھیں نیک و عادل اور افضل امت بنایا ہے، تاکہ تم ان لوگوں کے بارے میں (کہ جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور کفر و شرک پر قائم رہے ہیں) گواہی دو اور تمہارے گواہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوں گے‘‘۔ (رواہ البخاری)