حدیث

حضرت عبداﷲ ابن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور فقراء مہاجرین کا حلقہ جما ہوا تھا کہ اچانک نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم تشریف لے آئے اور فقراء کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے ۔ میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھا اور ( حضور صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم  کی اتباع میں ) فقراء کے قریب پہنچ کر ان کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ (تاکہ آنحضرتؐ اُن سے جو کچھ فرمائیں ، ان ملفوظات کو میں بھی سُن سکوں ) چنانچہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ’’فقراء مہاجرین کو وہ بشارت پہنچادینی ضروری ہے جو ان کو مسرور و شادماں بنادے ، پس ( وہ بشارت یہ ہے کہ ) فقراء مہاجرین جنت میں دولتمندوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے ‘‘ ۔              (الدارمیؒ )
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ، بخدا میں نے دیکھا کہ (یہ بشارت سُنکر) فقراء ( کے چہروں ) کا رنگ روشن و تاباں ہوگیا ۔ پھر حضرت عبداﷲؓ نے فرمایا کہ یہ (بشارت سن کر اور فقراء کے چہروں کی تابانی و شگفتگی ) دیکھ کر میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ ( کاش ) میں بھی اُن ہی جیسا ہوتا ( یعنی اس دنیا میں مجھ پر بھی فقر و افلاس طاری ہوتا اور میں اس جماعت فقراء میں شمار ہوتا ) یا یہ کہ ان میں سے ہوتا ( یعنی آخرت میں اس جماعت کے ساتھ اُٹھتا اور انہی کے ساتھ میرا حشر ہوتا ) ۔