حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا ’’اعلان کرنے والا ( فرشتہ ) قیامت کے دن ( اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ) یہ اعلان کرے گا کہ ساٹھ سال کی عمر والے لوگ کہاں ہیں ( یعنی دنیا میں جن لوگوں نے ساٹھ سال کی عمر پائی ، وہ اپنی عمر کا حساب دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور یہ عمر ، وہ عمر ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے : کیا ہم نے تم کو ایسی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرے حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا ۔
(بیہقیؒ ، شعب الایمان )
’’ڈرانے والا ‘‘ سے مراد یا تو اﷲ تعالیٰ کے احکام و ہدایات یعنی قرآن مجید اور اس کے رسول ہیں ، یا پھر اس سے مراد بڑھاپا اور موت ہیں ! حاصل یہ کہ جس شخص کو اﷲ تعالیٰ نے اتنی طویل عمر عطا کی ہو اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کے اتنے زیادہ مواقع نصیب کئے ہوں وہ شخص اگر عقل و دانش سے کام لے کر اپنی آخرت کی بھلائی و کامیابی کے لئے کچھ نہ کرسکے اور عمر کا اتنا طویل عرصہ یوں ہی گنواکر اس دنیا سے چلا جائے تو اس سے زیادہ احمق و نادان اور اس سے زیادہ بدنصیب اور کون ہوسکتا ہے ! لہذا ایسے شخص کو قیامت کے دن سخت جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہاں کوئی عذر خواہی اس کے کام نہیں آئے گی ۔