حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لئے عذر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا (یعنی اس کا عذر دُور کردیا) جس کی موت کو اتنا مؤخر کیا کہ اس کو ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا دیا‘‘۔ (بخاری)
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اتنی لمبی عمر عطا کی اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دی اور اس نے اس کے باوجود توبہ و انابت کی راہ اختیار نہیں کی اور گناہوں سے باز نہیں آیا تو اب اس کے لئے عذر خواہی کا وہ کونسا موقع رہ گیا ہے، جس کے سہارے وہ قیامت میں عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے!۔ اگر کوئی جوان گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کیا ہوا ہے تو وہ کہتا ہے کہ جب میں بڑھاپے کی منزل میں پہنچوں گا تو اپنے بدعملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرلوں گا اور اپنی زندگی کے اس حصہ کو خدا کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے اور توبہ و انابت اور عمل کرنے کا آخری موقع بھی اس کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو وہ اپنی بے عملی اور گناہوں پر کیا کہے گا؟۔ ہائے! کتنے کم نصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کی آخری منزل میں بھی پہنچ کر اپنی بے عملیوں اور اپنے گناہوں پر نادم و شرمسار نہیں ہیں اور اس آخری مرحلہ پر بھی جب کہ موت ان کو آدبوچنے کے لئے بالکل تیار کھڑی ہے، انھیں رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و رحمت پکڑلینے کی توفیق نہیں ہوتی!؟۔
بعض حضرات کے قول کے مطابق اس ارشاد گرامی کے معنی یہ ہیں کہ بوڑھے شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار کرتا رہے اور اس میں قطعاً تقصیر و کوتاہی نہ کرے!۔