حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اور میری والدہ گارے سے کسی چیز کو (یعنی اپنے مکان کی دیواروں یا چھت کو) لیپ پوت رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہماری طرف ہوگیا۔ آپﷺ نے (ہمیں اس حالت میں دیکھ کر) فرمایا کہ ’’عبد اللہ یہ کیا ہے؟‘‘ (یعنی یہ لیپ پوت کس وجہ سے ہو رہی ہے؟) میں نے عرض کیا کہ اس چیز (یعنی دیواروں یا چھت) کی درستی و مرمت کر رہے ہیں (یا اس کو اس لئے لیپ پوت رہے ہیں، تاکہ اس میں پختگی آجائے) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’امر، یعنی اجل اس سے بھی زیادہ جلد آنے والی ہے‘‘۔ (احمد و ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ موت کا آنا اس مکان کی ٹوٹ پھوٹ اور خرابی سے کہیں پہلے متوقع ہے۔ تم لیپ پوت کے ذریعہ اس مکان کی مرمت و درستگی میں اس لئے مصروف ہو کہ کہیں اس کے درودیوار اور چھت تمہاری زندگی ختم ہونے سے پہلے نہ گرپڑیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مکان کے گرنے پڑنے اور اس کے خواب ہونے سے تم خود موت کی آغوش میں پہنچ سکتے ہو۔ پس تمہارے لئے اپنے عمل کی اصلاح کی طرف متوجہ رہنا، اس مکان کی مرمت و درستگی میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر ہے اور اس میں دل لگانا عبث ہے!۔
اس حدیث شریف سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنے مکان کو گارا مٹی لگانا اشد ضرورت کے تحت نہیں ہوگا، بلکہ وہ زیادہ مضبوطی اور آرائش کے لئے اس کو لیپ پوت رہے ہوں گے! جس کو دیکھ کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توجہ موت اور آخرت کی طرف مبذول کرائی کہ ’’کسی غیر ضروری کام سے بہتر یہ ہے کہ اپنی آخرت بہتر بنانے کی جانب توجہ مرکوز کی جائے‘‘۔