حضرت ابوموسی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت ’’امت مرحومہ‘‘ ہے (یعنی دوسری امتوں کی بہ نسبت میری امت کے لوگوں پر اللہ تعالی کی رحمت بہت زیادہ ہے، کیونکہ ان کے نبی کی شان بھی رحمۃ للعالمین ہے) اس امت پر آخرت میں عذاب نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب فتنے، زلزلے اور ناحق قتل ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
’’آخرت میں عذاب نہیں ہوگا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں دائمی عذاب یا سخت عذاب جو کفار و مشرکین کے لئے ہے، اس امت پر نہیں ہوگا، بلکہ اس کا عذاب یہ ہے کہ جو لوگ برے اعمال کرتے ہیں اور دین و شریعت کے راستہ پر نہیں چلتے، ان کو سزا کے طورپر اس دنیا میں مختلف فتنوں، آفتوں، امراض اور طرح طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کردیا جاتا ہے، جس کی تائید آیت قرآنی اور حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے۔
بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حدیث شریف کے الفاظ ’’عذابھا فی الدنیا… الخ‘‘ خاص طور سے ان مسلمانوں کے حق میں ہے، جو کبیرہ گناہوں کا ارتکاب نہیں کرتے اور بھی ممکن ہے کہ اس حدیث شریف کا روئے سخن اس امت کی ایک مخصوص جماعت یعنی صحابہ کرام کی طرف ہو۔ تاویل کی جائے گی کہ یہاں امت سے مراد وہ شخص ہے، جو اللہ تعالی کے احکام کی فرماں برداری کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی کامل پیروی کرے اور ان چیزوں سے پوری طرح پرہیز کرے، جن کو اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
’’دنیا میں اس کا عذاب…‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میری امت کے لوگ زمانہ کے جن حادثات سے دو چار ہوتے ہیں، جیسے زلزلے آتے ہیں اور جان و مال کو نقصان پہنچاتے ہیں، سیلاب آتے ہیں اور سخت تباہی پھیلاتے ہیں، لوٹ مار مچتی ہے اور مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچتا ہے، اسی طرح دیگر آفتیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور یہ سب چیزیں ان لوگوں کے گناہوں، خطاؤں اور بدعملیوں کے کفارہ کا موجب بنتی ہیں اور آخرت میں ان کے درجات کی بلندی کا باعث ہوتی ہیں۔