حج 2017 کی تیاریوں پر نقوی اور سعودی سفیر کے درمیان تبادلہ خیال

نئی دہلی، یکم مئی (سیاست ڈاٹ کام)اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی اور ہندوستان میں سعودی سفیر سعود بن محمد الساطی نے آج یہاں سال 2017کی حج کی تیاریوں اور اس سے متعلق دیگر امور پر بات چیت کی۔سعودی سفیر نے بعد میں بتایا کہ مسٹر نقوی کے ساتھ ان کی بات چیت کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی اور یہ کافی سود مند رہی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے حج کے سلسلے میں مختلف امور پر بات چیت کی۔مسٹر نقوی نے بعدمیں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ رواں سال کے لئے حج کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوگئی ہے ۔ حج کی تیاریوں کے سلسلے میں ہندوستان کے ایک وفد نے گذشتہ دنوں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا ۔ انہوں نے اس سال عازمین حج کی تعداد میں تقریباً34 ہزار کے اضافہ کے لئے سعودی عرب کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ امسال لگ بھگ ایک لاکھ 70ہزار ہندوستانی مقدس فریضہ ادا کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور سعودی عرب کے رشتے بہت مستحکم ہیں اور موجودہ نریندر مودی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ تمام ملکوں اور بالخصوص مسلم ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات بہتر اور مستحکم ہورہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مسٹر نقوی نے بتایا کہ ہم اگلے سال یعنی 2018 سے پانی کے جہاز کے ذریعہ بھی ہندوستان سے عازمین کو حج پر بھیجنے کے سلسلے میں غور کررہے ہیں اور اس سلسلے میں سعودی افسران سے صلاح و مشورہ جاری ہے ۔ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ پانی کے جہاز سے سفر کرنے میں بہت زیادہ وقت لگے گا اور کہا کہ تیس سال پہلے کے مقابلے ، جب پانی کے جہاز کے ذریعہ سفر حج کو منقطع کیا گیا تھا، آج ٹکنالوجی اور دیگر سہولیات کے لحاظ سے کافی ترقی ہوچکی ہے اور اب دو سے تین دن کے اندر پانی کے جہاز سے ہندوستان سے سعودی عرب پہنچا جاسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے غریبوں کو حج کرنے کی تمنا پوری ہوجائے گی کیوں کہ اس پر ہوائی جہاز کے مقابلے تقریباً آدھا خرچ آئے گا۔ پانی کے جہاز کے ذریعہ حج پر جانے والوں کو سبسڈی دینے کے متعلق پوچھے جانے پر مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2012 میں حج سبسڈی کو مرحلہ وار ختم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ ہم کوشش کریں گے کہ عدالت عظمی کے فیصلے کو نافذ کرنے کے باوجود حج پر جانے والوں پر مالی بوجھ نہ پڑے ۔تین طلاق کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں مسٹر نقوی نے کہا کہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے اور سماجی اصلاح سے اس کا تعلق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلم سماج کے لوگوں کو خود آگے آکر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہئے ۔انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پرجو صحت مند مثبت بحث و مباحثہ کا سلسلہ شروع ہوا ہے ،یہ اچھی بات ہے ۔