حج ہاؤز کی 10 ویں منزل پر تمام سہولتوں سے آراستہ ہال 4 سال سے بیکار

حیدرآباد ۔ 16 جنوری ۔ اصلاح کا کام اپنے گھر سے شروع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپنے گھر والوں اور گھر کو سدھارنے کی بجائے محلہ اور شہر والوں کو سدھارنے اور ان میں بہتری لانے کیلئے نکلتا ہے تو لوگ اس پر یہ کہتے ہوئے انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں کہ پہلے اپنے گھر کو نہیں سدھارتے اور نکل پڑے ہیں دنیا کو سدھارنے۔ ایسا ہی کچھ ریاستی وقف بورڈ کے ساتھ ہورہا ہے۔ ویسے تو شہر اور مضافات میں کروڑہا روپئے مالیتی موقوفہ جائیدادیں ہیں اور ان جائیدادوں کے ذریعہ وقف بورڈ غیرمعمولی آمدنی کے وسائل باآسانی پیدا کرسکتی ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہیکہ خود حج ہاؤز نامپلی میں جہاں، ریاستی وقف بورڈ، حج ہاؤز اردو اکیڈیمی محکمہ اقلیتی بہبود اور دفتر قضاء ت کام کرتے ہیں 50 فیصد عمارت خالی پڑی ہوئی ہے۔

اگر 11 منزلہ عمارت کے ان خالی پڑے ہوئے حصوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو وقف بورڈ کی آمدنی میں کافی اضافہ ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر حج ہاؤز کی 10 ویں منزل پر سال 2009ء میں اقلیتی طلبہ کیلئے پیشہ ورانہ کورسس کی خصوصی تربیتی پروگرام کا انتظام کیا گیا تھا اور اس کیلئے زائد از 5 ہزار مربع فیٹ رقبہ پر مشتمل اسی منزل کو 50 لاکھ روپئے کے مصارف سے سجایا سنوارا گیا تھا۔ اس ہال میں تقریباً 150 لوگوں کے بیٹھنے کیلئے آرام دہ کرسیاں، سمیناروں اور کانفرنس کے انعقاد کیلئے پروجیکٹرس، اسکرینس گرانائٹ استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے ٹیبلس، 8 ایرکنڈیشنر، شاندار کارپٹس اور روشنی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ اس منزل پر پہنچنے کیلئے دو لفٹس بھی ہیں۔ پورے ہال میں غیرمعمولی چوبی کام کیا گیا۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ یہ ہال یا10 ویں منزل گذشتہ چار برسوں سے عدم استعمال کا شکار ہے۔ اگر بورڈ کے اعلیٰ عہدیدار چاہتے تو تمام سہولتوں سے آراستہ اس منزل کو سمینار ہال میں تبدیل کرتے ہوئے اسے سمیناروں، کانفرنسوں، اجلاسوں اور مختلف اسکولوں کی تقاریب و سائنسی نمائش کیلئے کرایہ پر دے سکتے تھے۔

ایسے میں ریاستی وقف بورڈ کو لاکھوں روپئے کی آمدنی ہوسکتی تھی۔ حج کے سیزن کے بعد حج ہاؤز کی کم از کم 5 منزلیں خالی پڑی ہیں۔ ایسے میں سال کے 11 ماہ ان منزلوں کو کرایہ پر دینے سے وقف بورڈ کی آمدنی میں غیرمعمولی اضافہ ہوسکتا ہے۔ وقف بورڈ کے اسپیشل آفیسر جناب شیخ محمد اقبال نے کل مدینہ ایجوکیشن سنٹر کی عمارتوں کو وقف بورڈ کی تحویل میں لینے کا اعلان کرنے کیلئے جو پریس کانفرنس طلب کی تھی اس میں جب انہیں بتایا گیا تو حج ہاؤز کی 10 ویں منزل کے بارے میں بتایا تو وہ حیران رہ گئے اور اپنے ماتحت عہدیداروں سے دریافت کیا تو ان لوگوں نے اثبات میں جواب دیا جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ حج ہاؤز نامپلی کے خالی پڑی منزلوں کو آمدنی کا ذریعہ بنانے کیلئے ضرور اقدامات کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وقف بورڈ کو سالانہ صرف 7 کروڑ روپئے کی آمدنی ہوتی ہے جبکہ بورڈ کی سالانہ آمدنی 700 کروڑ ہونی چاہئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ شہر کے اہم مقامات پر موجودہ موقوفہ اراضیات و جائیدادوں کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مضافاتی علاقوں اور اضلاع میں واقع موقوفہ جائیدادوں و اراضیات کے تحفظ اور انہیں آمدنی کے ذرائع میں تبدیل کرنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں اور اس کیلئے ایک تین رکنی خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے۔

یہ ایسی ٹیم ہوگی جو شہر اور مضافاتی علاقوں کی اہم موقوفہ جائیدادوں کی نشاندہی کرے گی تاکہ ان سے آمدنی کے وسائل پیدا کئے جاسکیں۔ جناب شیخ محمد اقبال نے بڑے افسوس کے ساتھ بتایا تھا کہ وقف بورڈ کی آمدنی انتہائی کم ہے۔ حد تو یہ ہیکہ ہزاروں کروڑ روپئے مالیتی موقوفہ جائیدادیں رکھنے کے باوجود بورڈ کے ملازمین کو بیٹھنے کیلئے سلیقہ کی کرسیاں تک نہیں ہیں۔ بہرحال جناب شیخ محمد اقبال وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ کیلئے جو عزم رکھتے ہیں اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ ساتھ ہی انہیں یہ مشورہ بھی دیا جاسکتا ہیکہ ریاستی حج ہاؤز کی عمارت کو بھی آمدنی کا ذریعہ بنائیں۔