حج کے اقسام اور اس کی ادائی

٭ اور مناسب ہے کہ خضر علیہ السلام کی دعاء کابھی ورد کرے اور وہ یہ ہے :
’’ یَا مَنْ لاَّ یَشْغَلُہٗ شَأْنٌ عَنْ شَأْنٍ وَ لَا سَمْعٌ عَنْ سَمْعٍ وَلَا تَشْتَبِہٗ عَلَیْہِ الْاَصْوَاتُ یَا مَنْ لَا یَغْلِطُہٗ کَثْرَۃُ الْمَسَائِلِ بِالْحَاجَاتِ وَ لَا یَخْتَلِفُ عَلَیْہِ الُّلغَاتُ وَ یَا مَنْ لَا یُبْرَمُہٗ اِلْحَاحُ الْمُلِِحِّیْنَ فِیْ الدُّعَائِ وَ لَا تَضْجِرُہٗ مَسْأَلَۃُ السَّائِلِیْنَ اَذِقْنَا بَرْدَ عَفْوِکَ وَ حَلَاوَۃَ مَغْفِرَتِکَ وَ لَذَّۃَ مُنَاجَاتِکَ وَرَحْمَتِکَ۔ ‘‘
اے وہ ذات کہ تجھ کو ایک حالت سے دوسری حالت نہیں روکتی اور نہ ایک کا سننا دوسرے کی سننے سے مانع ہوتا ہے اور نہ تجھ پر آوازیں مشتبہ ہوتی ہیں ۔ اے وہ ذات کہ تجھ کو بہت سی مرادیں مانگنا غلطی میں نہیں ڈالتا اور نہ تجھ پر زبانیں مختلف ہوتی ہیں اور اے وہ ذات کہ تجھ کو نہ دعا مانگنے والوں کا اصرار عاجز کرتا اور نہ سوال کرنے والوں کا سوال تنگ کرتا تو ہم کو اپنی بخشش کی ٹھنڈک اپنی مغفرت کی حلاوت اور اپنی مناجات و رحمت کی لذت چکھا ۔
٭ اور یہ دعا جس کو امام غزالی ؒ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں نہایت موثر ہے :
’’ اِلٰھِیْ مَنْ مَّدَحَ اِلَیْکَ نَفْسَہٗ فَاِنِّی لَائِمٌ لِّنَفْسِیْ اَخْرَسَتِ الْمَعَاصِیْ لِسَانِیْ فَمَالِیْ وَ سِیْلَۃٌ مِنْ عَمَلٍ وَ لَا شَفِیْعٌ سِوَا الْاَمَلِ‘‘ ۔
اے اللہ ! کرنے والوں نے اپنی تعریف تیرے سامنے کی ہوگی مگر میں تو اپنے آپ کو ملامت کرنے والا ہوں ۔ گناہوں نے میری زبان گونگی کر دی پس نہ مجھ کو عمل کا وسیلہ ہے اور نہ سوائے تیری امید کے کوئی میرا شفیع ہے ۔
٭ سورج ڈوبنے کے بعد لبیک کہتا اور دعائیں پڑھتا ہوا امام کے ہمراہ اطمینان اور وقار کے ساتھ مزدلفہ کی طرف آئے ۔ اگر قدرت ہو تو جلدی جلدی چلے کیونکہ تیز چلنا مسنون ہے لیکن تیز چلنے سے کسی کو تکلیف نہ دے ۔ جب مزدلفہ کے پاس پہونچے اگر ہوسکے پیادہ ہولے اور غسل کرے ورنہ وضو کرے اور مزدلفہ کے پہاڑ کے پاس جس کو مشعر الحرام کہتے ہیں مسجد کی قریب راہ سے دا ہنی طرف اترے ۔ عین راہ میں نہ اترے کیونکہ یہ مکروہ ہے ۔ اگر وہاں جگہ نہ پائے تو پھر تمام مزدلفہ ٹھہرنے کا مقام ہے بجز وادی محسر کے کہ وہاں سے گزرتے ہوئے بقدر پھینکنے ایک پتھر کے تیز چلے اور سوار ہو تو سواری کو تیز کرے بشرطیکہ اور چلنے والوں کو ایذا نہ پہونچے اور وہاں سے گزرتے ہوئے یہ دعا ء پڑھے :
’’اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَ لَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ‘‘
اے اللہ ! نہ تو ہم کو اپنے غصہ سے قتل کر اور نہ اپنے عذاب سے ہلاک کر اور ہم کو اس سے پہلے عافیت دے ۔
٭ اور اسباب اتار نے سے پہلے اگر مطمئن ہو تو مغرب و عشاء کی نماز ایک اذان اور ایک تکبیر (اقامت) سے امام کے پیچھے عشاء کے وقت ملاکر پڑھے۔ مگر امام شافعی و امام مالک کے نزدیک دو تکبیر کے ساتھ ادا کرے ۔ مغرب و عشاء کی سنت اور وتر دونوں کے بعد پڑھے ۔ مغرب کی نماز میں بھی ادا کی نیت کرے ۔ جماعت سنت موکدہ ہے۔ اگر اکیلے پڑھے تو بھی دونوں نمازوں کو جمع کرے ۔
٭ رات بھر وہاں رہے اور مثل عرفات کے خدا کی یاد ‘ دعا ‘استغفار اور استدعائے رضامندی اعداء میں مشغول رہے ۔ جب صبح صادق ہو ‘ اندھیرے میں فجر کی نماز امام کے پیچھے یا اکیلے پڑھ کر کوہ مشعر الحرام کے پاس جس کو جبل قزح بھی کہتے ہیں اور اب اس پر مکان بھی بن گیا ہے ‘ جا کر قبلہ رو لبیک تسبیح ‘ تہلیل ‘ تکبیر ‘ تحمید اور درود میں مشغول ہو اور طلوع آفتاب کے قریب تک ہاتھ پھیلا کر دعاء مانگے اور یہ دعاء پڑھے ۔
’’ اَللّٰھُمَّ بِحَقِّ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَ الْبَیْتِ الْحَرَامِ وَ الشَّھْرِ الْحَرَامِ وَالرُّکْنِ وَ المَقَامِ بَلِّغْ رُوْحَ مُحَمَّدٍ مِّنَّا التَّحِیَّۃَ وَ السَّلَامَ وَ اَدْخِلْنَا دَارَ السَّلَامِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الاِکْرَامِ ۔‘‘
اے اللہ ! مشعر الحرام ‘ خانہ کعبہ ‘ ماہ حرام ‘ رکن حجر اسود اور مقام ابراہیم کے طفیل میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک کو ہماری طرف سے درود و سلام پہنچا اور اے بزرگی اور عزت والے تو ہم کو جنت میں داخل کر ۔ پھر باقلی (لوبیا) یا چنے کے برابر ۷۰ کنکریاں مزدلفہ سے لیکر منیٰ میں آئے اور نالے کے نشیب میں پانچ گز یا اس سے کچھ زیادہ فاصلہ سے جمرۃ العقبۃ کے سامنے ‘ منـٰی کو دا ہنی جانب ‘ کعبہ کو بائیں طرف چھوڑ کر سواری یا پاپیادہ کھڑا ہو اور داہنے ہاتھ کے انگوٹھے اور کلمے کی انگلی سے ان کنکریوں کو متفرق طور پر خوب تاک کر جمرۃ العقبہ پر مارے اور ہرکنکری مارنے میں یہ دعا ء پڑھے ۔
’’ بِسْمِ اللّٰہِ ‘ اَللّٰہُ اَکْبَرْ رَغْمًا لِّلشَّیْطَانِ وَ حِزْبِہٖ وَ رِضیً لِّلرَّحْمٰنِ وَ لُطْفِہٖ اَ للّٰھُمَّ اجْعَلْہٗ حَجًّا مَّبْرُوْرًا وَّ سَعْیًا مَّشْکُوْرًا وَّ ذَنْبًا مَّغْفُوْرًا ۔‘‘
میں اللہ کا نام لیکر اور اللہ سب سے بڑا ہے شیطان اور اس کے گروہ کی ذلت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و مہربانی کے لئے ایسا کرتا ہوں ۔ اے اللہ ! تو اس کو مقبول حج اور قابل قدر سعی اور بخشا ہوا گناہ قرار دے ۔ اور کنکریاں پھینکنے کے وقت ہاتھ اس قدر بلند ہو کہ بغل نظر آنے لگے اور پھینکنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنکری انگوٹھے کے ناخن پررکھ کر کلمہ کی انگلی سے پھینکے یا کلمہ کی انگلی کے اوپر کے جوڑ پر اندر کی جانب رکھ کر انگوٹھے کے ناخن سے پھینکے یا ان دونوں کی پور میں پکڑ کر پھینک دے اور یہ سب سے آسان ہے ۔ اگر جمرۃ العقبہ پر لگے یا اس کے آس پاس تین گز تک پڑے تو بہتر ہے ورنہ اس کے بدلے اور پھینکے ۔
٭ پہلی کنکری پھینکتے وقت لبیک کہنا موقوف کرے خواہ مفرد ہو یا قارن یا متمتع اور کنکریوں کو جمرات پر سے اٹھا کر نہ مارے اس لئے کہ مقبول رمی کی کنکریاں فرشتے اٹھالے جاتے ہیں اور جو نامقبول ہوتی ہے وہ باقی رہ جاتی ہے ۔ پس نامقبول کنکری سے رمی نہیں کرنا چاہئے لیکن اگر ایسا کیا جائے تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ البتہ اگر کنکری ہاتھ سے گر پڑے اور اس کو اٹھا کر مارے تو اس میں کچھ قباحت نہیں ۔
٭ جب کنکریوں کے پھینکنے سے فراغت پائے تو دعاء مانگتا ہو ا اپنے مقام پر آجائے کیونکہ وہاں ٹھہر نے سے اوروں کو تکلیف ہوگی ۔ پھر آتے ہی قربانی کرے ۔ قربانی مفرد پر مستحب اور قارن و متمتع پر واجب ہے ۔ اگر ان دونوں کو مقدور نہ ہوتو تین روزے دسویں سے پہلے اور سات روزے ایام تشریق کے بعد جملہ دس روزے رکھیں اور ذبح کرنے سے پہلے یا اس کے بعدیہ دعاء پڑھے:
’’ اِنِّیْ وَ جَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفاً وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ ھٰذَا النُّسُکَ وَ اجْعَلْھَا قُرْبَانًا لِوَجْھِکَ وَ عَظِّمْ اَجْرِیْ عَلَیْھَا ‘‘ ۔
البتہ میں نے اپنا رخ سیدھا اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ بے شک میری نماز ‘میری عبادت ‘میری زندگی ‘ میری موت سب پروردگار عالم کیلئے ہے جس کا کوئی ساجھی نہیں ۔ اور مجھے اسی بات کا حکم ہوا ہے اور میں پہلے فرمانبرداروں سے ہوں ۔ اے اللہ! تو میری اس عبادت کو قبول اور اس کو اپنی ذات پاک پر فدا کر اور اس پر مجھے اجر عظیم دے ۔ اگر قربانی کے دنبے ‘ بکرے کا سر ‘ پاؤں سیاہ اور باقی بدن سفید ہو تو بہتر ہے اور مستحب یہ ہے کہ قربانی کے دو ہاتھ ایک پاؤں باندھ کر اس کا منہ بائیں ہاتھ سے پکڑ کر داہنے ہاتھ سے قبلہ رو ہو کر ذبح کرے ۔ اس کے بعد سر منڈائے یا بال کترائے جیسا کہ عمرے کے بیان میں گزرا ۔ سر منڈاتے وقت یا اس کے بعد تکبیر بھی کہے اور دعاء بھی مانگے جیسا کہ عمرے میں مذکور ہوا ۔ اس فعل سے اس کو سب چیزیں جو احرام باندھنے کے بعد منع تھیں حلال ہوگئیں مگر عورت سے رغبت کی بات چیت کرنا طواف زیارت کے بعد جائز ہوگا۔ پھر اسی دن مکہ میں طواف زیارت ادا کرے ۔ اگر پہلے رمل و سعی کرچکا ہو تو یہ طواف بغیر اضطباع و رمل کے ادا کرے ورنہ صرف رمل کرے ‘ اضطباع نہ کرے ۔ اس کے بعد صفا و مروہ میں سعی کرے ۔ یہ طواف گیارہویں بارہویں کو بھی جائز ہے۔ پھر طواف زیارت یا طواف و سعی کے بعد منـٰی میں جا کر شب باش ہو ۔ گیارہویں کو امام مسجد خیف میں ظہر کے بعد خطبہ پڑھتا اور بقیہ احکام بیان کرتا ہے اس کے سننے کے بعد جمرہ اولیٰ پر جو مسجد خیف کے پاس ہے ‘بدستور سابق سات کنکریاں مارے ۔ پھر ذرا سا بڑھکر قبلہ رو ہو کے خدا کی حمد و تسبیح و تہلیل بجالائے ‘ درود پڑھے اور اتنے عرصہ تک ہاتھ اٹھا کر دعاء مانگے کہ اس میں سورہ بقرہ یا تین پاؤ سپارہ یا تیس آیتیں پڑھ سکے ۔ پھر جمرۃ الوسطیٰ پر آ کر بھی ویسا ہی کرے مگر نالے کی بائیں طرف آئے اور نشیب میں ٹھہرے پھر جمرۃ العقبہ پر کنکریاں مار کر بلا توقف دعاء مانگتا ہوا اپنے مقام پر آجائے اور شب کو وہیں رہے کیونکہ یہ مسنون ہے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک واجب ہے ۔
٭ پھر بارہویں تاریخ کو بھی ظہر کے بعد مثل گیارہویں کے کنکریاں مارے اگر اسی دن چلا آئے توکچھ مضائقہ نہیں ۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ’’ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَـلَا اِثْمَ عَلَیْہِ ‘‘ پس جو شخص دو دن میں شتابی کرے اس پر گناہ نہیں ۔ اسی واسطے بہت سے لوگ اسی دن چلے آتے ہیں اور اس دن کو نفر اول کہتے ہیں ۔ مگر بہتر یہ ہے کہ تیرہویں تاریخ کو بھی ظہر کے بعد کنکریاں پھینک کر بکمال تواضع و عاجزی روانہ ہو ۔ چنانچہ اکثر باہمت پرہیزگار ایسا ہی کرتے ہیں ۔ اس دن کو نفر ثانی کہتے ہیں ۔پھر محصب میں آ کر ٹھہرے اور دعاء مانگے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں قیام کیا ہے ۔ آفاقی حج کرنے والے کو خواہ مفرد ہو خواہ قارن خواہ متمتع طواف وداع یعنی طواف رخصت واجب ہے ۔ مگر عمرہ لانے والے اور حیض والی عورت اور زچہ اور غیر آفاقی پر واجب نہیں ۔ اس طواف کو بلا اضطباع و رمل جیسا کہ اوپر گزرا گھر جانے کے وقت بجالائے اور زمزم کا پانی پینے کے بعد بطور تبرک کے اپنے سر اور منہ اور باقی بدن پر ڈالے ۔ پھر ملتزم پر آ کر چمٹے اور اپنے سینے اور داہنے گال کو کعبہ کی دیوار پر رکھے اور داہنے ہاتھ کو دروازے کی چوکھٹ کی طرف بڑھائے اور جیسا کہ غلام اپنے مولا کا دامن پکڑ کر تقصیر بخشواتا ہے‘ اسی طرح کعبہ کا پردہ ہاتھ میں پکڑ کر روتا ہوا گناہ بخشوائے اور استغفار ‘ دعاء ‘ کلمہ توحید اور درود پڑھے ۔ پھر دروازہ کی چوکھٹ کو بوسہ دے اور جو چاہے دعاء مانگے اور حجر اسود کا استلام کرے پھر حسرت سے کعبہ کو دیکھتا اور اپنی جدائی پر روتا ہوا الٹے پاؤں پھرے اور باب الوداع سے باہر آئے ۔ مگر حیض والی عورت اور زچہ دروازہ پر سے رخصت ہو ۔ طواف وداع اس سے ساقط ہے ۔ رخصت ہونے کے وقت مساکین کو کچھ خیرات بھی کرے ۔
(از: نصاب اہل خدمات شرعیہ، حصہ ہفتم۔ بشکریہ ادارہ ٔجامعہ نظامیہ)
zubairhashmi7@gmail.com