حج اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے،یہ وہ فریضہ اسلام ہے جواسلامی اتحاد ویگانگت، انسانی مساوات کا عملی مظہرہے ،خلوص دل اورجائزمال سے اسکی ادائیگی انسانی زندگی میں انقلاب برپاکرتی ہے،ایک حاجی جب حج کے ارادہ سے عازم سفرہوتاہے توگویا وہ اللہ سبحانہ کی رحمتوں کے آغوش میں ہوتاہے ،اسکی ہر طرح اللہ سبحانہ میزبانی فرماتے ہیں ،حدیث پاک میں ارشادہے ’’حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے مہمان ہیں اگروہ دعامانگتے ہیں تو حق سبحانہ انکی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں،اپنے گناہوں کی بخشش ومغفرت چاہتے ہیں تواللہ سبحانہ انکی مغفرت فرمادیتے ہیں ‘‘(ابن ماجہ باب :فضل دعاء الحج /۲۰۸) اللہ سبحانہ کی رحمتوں کے استحقاق کیلئے حج کرنے والوں کو سفرحج سے پہلے اپنا سخت محاسبہ کرنا اورجائزہ لینا چاہیئے کہ انھوں نے پچھلی زندگی کیسی گزاری ہے ، دل ندامت سے سرشار،آنکھیں اشکبارہوں ۔سچے دل سے کئے گئے توبہ و استغفارنے حج کے ارکان اداکرنے سے پہلے ہی حج کرنے والوں کو گناہوں سے پاک وصاف کردیا ہو،ظاہری طہارت کا اہتمام تو ہر حاجی کرتاہے لیکن باطن کی طہارت وپاکیزگی کا اہتمام حج کی قبولیت کے امکانات کو روشن کردیتاہے کیونکہ ایسے ظاہری اعمال جن میں باطنی کیفیات کو شامل نہ رکھا گیاہو بے روح جسدکی طرح ہوتے ہیں،اسلامی اعمال کی جان دراصل اسکی روح ہے اسکے بغیراعمال کی قبولیت پرایک سوالیہ نشان لگ جاتاہے ۔حج کی ارکان اداکرتے ہوئے حج کی اس روح کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے،فریضہ حج اداکرتے ہوئے صرف یہی استحضارکافی نہیں کہ میں فریضہ حج اداکررہاہوں بلکہ حج کے مناسک جوحضرت سیدنا ابراہیم اورحضرت سیدنا اسماعیل علیہما السلام کی اداؤں کا مجموعہ ہیں۔جسمیں عبدیت وبندگی، تسلیم ورضا کے جلوے ہیں جودراصل حج کی روح اورجان ہیں،حج مبرورومقبول کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ فریضہ حج کی ادائیگی حج کرنے والوں کو تسلیم ورضاکا پیکربنائے،قلب کی کیفیات ،عجزواعتراف سے معمورہوں ،اب تک کی زندگی کی بھول اس طرح بے چین وبے قراررکھے کہ ہر آن دل میں اسکی کسک محسوس ہو،دنیامیں کھویا ہوابندہ دنیاجہاں کو بھول بھال کرایک نئے عہدکے ساتھ مرضیات رب کی دنیامیں گم ہو گیا ہو،اسکا سینہ محبت الہی کا ایساخزینہ بن گیا ہو کہ اسکارشتہ۔ غفلت کی پچھلی زندگی سے کٹ کرنیکی وخداترسی رضائے الہی کی سچی تڑپ سے جڑ گیا ہو۔نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺسے خطاب کرکے اللہ سبحانہ نے فرمایا ’’آپ فرما دیجئے یقینا میری نمازمیری قربانیاں ،میراجینا اورمیرامرنا سب اس اللہ کیلئے ہے جوعالمین کا رب ہے،جسکا کوئی شریک نہیں مجھے تو یہی حکم ہواہے اورمیں سب سے پہلا مسلمان ہوں ۔ ‘‘ (الانعام : ۱۶۴)یہی کچھ اک حاجی کا سرمایہ ہو،اس پیغام کی روح کواپنی فکر ونظرکاایسا حصہ بنالیاہو کہ یہی صدا قلب وروح کی گہرائیوںسے نکل رہی ہو۔’’لبیک اللہم لبیک ‘‘کی زمزمہ سنجیاں ، حجراسودکا استلام، طواف کعبہ ، باب کعبہ سے قربت ،ملتزم سے چمٹنا قلب وروح کو مسحور کررہا ہو، حرم پاک میں سجدہ ریزیاں روح کو آسودگی بخش رہی ہوں،مقام ابراہیم ،حطیم اورحرم پاک میں نمازوں کی ادائیگی روح کو اس طرح مزکی ّکررہی ہوکہ نفس امارہ یعنی برائی کا حکم دینے والا اوربرائیوں پر اکسانے والا نفس۔ منازل طے کرتے ہوئے نفس لوامہ یعنی ملامت کرنے والا نفس بلکہ نفس مطمئنہ یعنی اطمینان والی روح کا درجہ پا گیا ہو،اس عملی مجاہدہ کے ساتھ پیکرعجزوانکساربن کراپنے مالک ومولی کی دربارمیں دست بدعاء ہو،اللہم انی اسئلک نفسا بک مطمئنۃ، تؤمن بلقائک وترضی بقضائک وتقنع بعطا ئک ۔اے اللہ میں تیرے دربار میں حاضرہوں اورتجھ سے نفس مطمئنہ مانگتا ہوں جو تجھ سے ملاقات پر ایمان وایقان رکھتا ہو اورتیرے فیصلہ پر راضی اورخوش ہواورتیری عطا پر قانع ہو۔الغرض اس نعمت عظمی کو پاکرخیرپسندانہ جذبات لئے ہوئے خیرکی راہ پر گامزن رہنے اوردوسروں کوخیرکی طرف دعوت دینے کا عزم وارادہ دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوگیاہو کہ اب میراسینہ توحیدکی امانت سے معموررہے گا،محمدعربی ﷺکی محبت سے سرشار،اسلام کے سارے احکام کے آگے سرنگوں رہونگا۔اللہ کے لئے دوستی اوراللہ کیلئے دشمنی میری زندگی کا وطیرہ رہیگا،اس طرح کے مخلصانہ جذبات سے لبریزقلب کے ساتھ احرام باندھ کرمنی کی وادیوں میں قیام ،عرفات اورمزدلفہ کا وقوف روحانی انقلاب برپا کر تاہے
،عرفات کے میدان سے واپس ہوتے ہوئے ایسے حجاج کرام کو حج مبرورکی نعمت نصیب ہوتی ہے،حدیث پاک کے روسے جسکی جزاصرف اورصرف جنت ہے (بخاری :ابواب العمرہ ۱/۲۳۸) جسکا حج رفث ،فسوق (اورجدال) سے پاک ہوگا وہ گناہوں سے پاک وصاف ہوکرایسے لوٹے گا جیسے وہ اپنی پیدائش کے دن تھا۔(مسلم باب فضل الحج والعمرۃ/۴۳۶)حدیث شریف میں واردہے ’’وہ بڑاگنہگارہے جومیدان عرفات سے یہ سمجھکر لوٹے کہ میری مغفرت نہیں ہوئی ‘‘۔جائزخواہشات نفس اورہرطرح کے فواحش خواہ وہ عملی ہوں کہ لسانی سب کے سب لفظ ’’رفث‘‘میں سمودئے گئے ہیں۔’’فسوق ‘‘جمع ہے فسق کی حدیث پاک میں ’’لم یفسق ‘‘فرماکرہر طرح کی نافرمانیوں ،گناہوں ،ہرطرح کے شروفساداورہر قسم کے لڑائی جھگڑے کوشامل کرلیا گیاہے ان سے اجتناب کا عزم محکم لئے ہوئے حج کے مناسک اداکرنے والے اوریہی جذبات عالیہ لیکرلوٹنے والے ہی حقیقی معنی میں حج مبرورکی نعمت پاتے ہیں۔حدیث پاک میں وارہے ’’حج کی خوبی نرم خوئی اوردوسروں کو کھانا کھلاناہے ‘‘۔ تواضع وانکساری،خلق خداکے ساتھ خندہ روئی سے پیش آنا ،حسن گفتاروحسن اخلاق کا اپنے آپ کوعملی نمونہ بنانا،دوسروںکو تکلیف دینے سے نہ صرف یہ کہ سخت احترازبلکہ دوسروں سے ایذاپہنچ جائے تواس پر صبراوردرگزرحاجی کے اہم صفات ہیں حج مبرورکی نعمت پانے کیلئے اسکی بڑی اہمیت ہے ۔اس اہتمام سے حج کرنے والوں کوروحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے ،اعمال حج کی ادائیگی ،حرمین پاک میں قیام کی برکت قلب ونظرکو ٹھندک بخشتی ،قلب وقالب کوفرحت وانبساط سے سرشار رکھتی ہے،ایمان وعرفان،محبت وایقان کی شمع فروزاں قلوب کو روشن کرتی ہے۔ حج کے مناسک اداکرتے ہوئے ایک اہم پیغام یہ ملتاہے کہ اللہ کا ذکراوراسکی عبادت اپنی خواہش ومرضی کے مطابق نہ کی جائے بلکہ اللہ کی بتائی ہوئی ہدایات ونبی رحمت ﷺکی دکھائی ہوئی روشنی کے مطابق انجام دی جائے ۔ارشادباری ہے ’’واذکروہ کماہداکم‘‘ ۔ حدیث پاک میں وارد ہے ’’خذواعنی مناسککم‘‘
حج بیت اللہ کے اہم ترین فریضہ سے واپس لوٹتے ہوئے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی اصلاح اپنی اوراپنے خاندان کی زندگی میں ایک نئے انقلاب کا جذبہ تازہ ہو،اس کے ساتھ قرآن پاک اوراحادیث نبویہ سے سچی وابستگی انکے معانی ومفاہیم جاننے کیلئے اگرعربی نہ آتی ہو تواردویاانگریزی تراجم سے استفادہ کی طرف خصوصی توجہ ہو، زندگی کوکچھ ایسی عملی بنا لیا جائے جواسلام کے پیکرمیں ڈھلی ہو،اس طرح بذات خود اسلام کا ایک عملی پیغام بننے کے ساتھ دوسروں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا عزم وارادہ اورعملی جدوجہدمقصودزندگی بن گیاہو۔ حضرت نبی پاک سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جس طرح حج کیا ہے وہ خودبھی اسلام کاایک دعوتی پیغام رہاہے مزیدانکا حج صرف مناسک حج کی ادائیگی تک محدود نہیں تھابلکہ مناسک حج کی ادائیگی کے ساتھ دعوت وتبلیغ کی عملی جدوجہدبھی اس میں شامل رہی ہے اسلئے فریضہ حج کا اداکرنا توحید کے پیغام ، اسلامی احکام اوراسکی روح کودوسروںتک پہنچانے کی ذمہ داری کا احساس تازہ کرتاہے ۔حجۃ الوداع کے مبارک خطبہ میںدعوت توحید،وحدت امت ، احترام انسانیت ،انسانی حقوق کے تحفظ کے پیغام کوجس اخلاص ودرد کے ساتھ آپ ﷺنے پیش فرمایا ہے اسکی نظیرآدم تا ایںدم بلکہ قیامت تک ممکن نہیں،اس آخری پیغام کے بعد آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا میں نے پیغام حق آپ تک پہنچادیا ہے ؟ سبھوں نے اک زبان ہوکراعتراف کیا کیوں نہیں بلاشبہ آپ نے بغیرکسی کمی وزیادتی کے نصح وخیرخواہی سے معمورجذبات محبت کے ساتھ پیغام رسالت ہم تک پہنچادیا ہے، پھرآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’فلیبلغ الشاہدالغائب ‘‘جو یہاں اس وقت موجودہیں انکی ذمہ داری ہے کہ وہ غیرموجود افراد تک اس پیغام حق کو پہنچائیں ۔یعنی مناسک حج اداکرکے روحانی پاکیزگی حاصل کرنے والے حجاج کرام پر فریضہ تبلیغ بھی واجب ہے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کی فکرمیں اپنے آپ کو گھلائیں اوراللہ سے ٹوٹے ہوئے بندوں کے رشتہ کو اللہ سے جوڑنے کی سعی کریں ۔بندگی وعبدیت کے تقاضوں سے محروم انسانیت کو اس کے دربارمیں جبین نیازخم کرنے والابنائیںحج بیت اللہ کے اہم ترین رکن وقوف عرفہ اداکرنے لینے کے بعد گویا رسول پاک ﷺ کے ارشادپاک کوسرمہ بصیرت بنالیں۔ حج بیت اللہ خواب غفلت سے بیدارہونے اورگناہوں اورنافرمانیوں کے ظلمت کدہ سے باہرنکلنے کا ایک بہت بڑاروحانی ذریعہ ووسیلہ ہے۔حج کی روح یہی ہے کہ نگاہوں پرپڑے غفلت کے پردے ہٹ جائیں، قلب وقالب پر چھائے گناہوں اورنافرمانیوںکے بادل چھٹ جائیں۔خالق ومالک کی محبت اسکی طاعت وفرماں برداری نبی رحمت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکی محبت آپ کی سنتو ں کی اتباع محبوب بن جائے، خلق خداکی محبت، انکا دردمحسوس کرنے اورانکے اخروی انجام کی فکرزندگی کا محوربن جائے ،یہی کچھ متاع حیات اورمقصد زندگی ایک حاجی کا ہونا چاہئیے جوحج کی روح اوراسکا حقیقی پیغام ہے ۔